تحریر: عرفان علیگلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے لئے عام انتخابات 8 جون 2015ء کو منعقد ہوئے، جس کے بارے میں ہم اپنی رائے 11 جون 2015ء کی ایک تحریر میں بیان کرچکے۔ اس الیکشن کی سب سے اہم اور خاص بات یہ تھی کہ دھونس دھاندلی کے سارے حربوں کے آزمائے جانے کے باوجود مجلس وحدت مسلمین نامی نسبتاً نئی مذہبی سیاسی جماعت نے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ دھونس اور دھاندلی کی سیاست کی بنیاد پر پاکستان کی حکمران جماعت نواز لیگ نے یہاں حکومت سازی کے لئے مطلوبہ سادہ اکثریت حاصل کرلی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی قیادت نے گلگت بلتستان میں نواز لیگ کی اتحادی حکمران جماعت بننے کی دعوت کو قبول نہیں کیا اور یوں وہ حزب اختلاف کی جماعت کے طور پر اس خطے میں پارلیمانی سیاست کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ بندہ مجلس وحدت مسلمین کی خدمت میں چند تجاویز یا مشورے پیش کرچکا تھا کہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دلوانے کے لئے پاکستان کی دیگر پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا ہوں گے اور یہ کہ اپنی تقاریر یا خطاب میں مخالفین کے بارے میں جارحانہ انداز بیاں سے گریز کرنا ہوگا۔ایک حقیقت کہ جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دینے کے لئے پاکستانی پارلیمنٹ کے دو تہائی اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اس لئے خیالی کتابی جدوجہد کی بجائے درست سمت میں حرکت کا آغاز کیا جانا چاہیئے۔ دھاندلی یہاں الیکشن میں ایک معمول کی کارروائی بن چکی ہے اور اس کے خلاف بڑی بڑی جماعتیں بھی بیان بازی اور جلسے جلوس تو کرسکتی ہیں، لیکن کوئی بڑی تبدیلی اپنے حق میں نہیں کرواسکتی، یہ پاکستانی سیاست کی تاریخ کی تلخ حقیقت ہے۔ اپوزیشن کی سیاست کرتے وقت اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ پاکستان کے عوام پوائنٹ اسکورنگ کی سیاست، الفاظ کی جنگ اور تنقید برائے تنقید کی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کو ایک نئے انداز کی سیاست متعارف کروانا ہوگی۔ اس سیاست کے خدوخال خمینی اور خامنہ ای ڈاکٹرن سے مستعار لئے جاسکتے ہیں۔ اگر مجلس وحدت کے افراد خود کو نظریہ پاکستان کا وارث قرار دیتے ہیں تو پھر آپ کا کردار سطحی نہیں بلکہ مدبرانہ رہبری پر مبنی ہونا چاہئے۔ آپ کو دیکھنا ہوگا کہ کس طرح امام خامنہ ای مختلف رائے رکھنے والے سیاستدانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اگر سیاسی اخلاقیات کے اسی دائرے میں رہ کر شیعہ جماعت مجلس وحدت مسلمین نے فعالیت دکھائی تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ خود کو ایک ایسی حقیقت منوانے میں کامیاب ہوجائے گی کہ جس سے کوئی سیاسی جماعت یا رہنما نظر چرا نہیں سکے گا۔دنیائے اسلام کی صورتحال تقریباً ایک جیسی ہے۔ مخلوط حکومتوں کے ذریعے ہی امور مملکت چلائے جا رہے ہیں۔ مخلوط حکومت نہ ہو تب بھی پاکستان میں پی پی پی نے قومی مفاہمت کی اصطلاح دے کر ایک اچھا کام کیا ہے۔ ایک ملت کے مختلف گروہوں میں سیاسی اختلاف رائے کا مطلب باہمی تصادم نہیں ہونا چاہئے۔ افہام و تفہیم، مصالحت کی روش پر گامزن رہ کر اپنے اہداف تک پہنچنا ہی اصل کامیابی ہے۔ جس طرح ہم یوم القدس، 23 مارچ، 14 اگست، 6 ستمبر یا دیگر مواقع پر اپنے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں قومی و بین الاقوامی ایشوز پر عادلانہ قومی موقف کے لئے بھی متحد ہونے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ جب ہم قومی مشاورت کے اس عمل میں ایک ذمے دار فریق کے طور پر شریک ہوں۔ گلگت بلتستان کی اپوزیشن جماعت کی حیثیت سے مجلس وحدت مسلمین قومی مشاورت کے عمل میں داخل ہونے کی اہلیت حاصل کرچکی ہے، اور یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا انتخابی عمل بھی انتہائی دلچسپ رہا۔ قرعہ اندازی میں جمعیت علمائے اسلام کے اکلوتے رکن اسمبلی شاہ بیگ کا نام آیا اور اب وہ اس عہدے پرفائز ہوچکے ہیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ مجلس وحدت مسلمین، پیپلز پارٹی وغیرہ اپنی بات پر قائم ہیں جبکہ اسلامی تحریک پاکستان کی طرف سے اس ایشو پر پہلے کچھ اور بعد میں کچھ اور کی پالیسی دیکھنے میں آرہی ہے۔ جیسا کہ پچھلی مرتبہ ہم نے جعفریہ پریس کی خبر کا حوالہ دے کر لکھا تھا کہ نواز لیگ کے دو اور پی پی پی کے اکلوتے منتخب رکن عمران ندیم اسلامی تحریک کے قائد علامہ ساجد نقوی کی حمایت سے کامیاب ہوئے اور اسلامی تحریک نے فخر سے اس کا کریڈٹ بھی لیا، لیکن اب اطلاعات یہ ہیں کہ وہ نہ حکمران جماعت کی بنچوں پر بیٹھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اب آئینی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ انہیں کس زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے؟ اس جماعت کے بارے میں تنقید سے گریز ہی بھلا ہے کیونکہ ’’حکیمانہ قیادت‘‘ کے عاشق مزاج پیروکار اندھے اور بہرے ہیں اور کیوں نہ ہوں یہ مولا علی ؑ کا فرمان ہے کہ عاشق اندھا اور بہرا ہوتا ہے۔ اس لئے نہ تو انہیں اپنی صفوں میں کوئی خامی نظر آئے گی اور نہ ہی وہ ہم جیسوں کی تنقید پر کان دھریں گے۔ چونکہ وہ عاشق صفت پیروکار ہیں، لہٰذا ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی، ہم ہی پر حملہ آور ہوں گے، اس لئے اس ایک پیراگراف پر ہی اکتفا کریں! مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کے ارد گرد موجود افراد میں سے کم از کم ایک کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے! دیوبندی مکتب فکر کی بعض جماعتوں سے محاذ آرائی جیسی فضا ایجاد کرنے والے اس ’’نادان دوست‘‘ کی حالت دیدنی ہوگی، ایسا میں چشم تصور سے دیکھ سکتا ہوں۔ اب بتائیں کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے شاہ بیگ کی حمایت پر آپ کے بارے میں بھی وہی کچھ کیوں نہ کہا اور لکھا جائے جو آپ علامہ ساجد نقوی اور ان کی جماعت کے بارے میں سوشل میڈیا پر فرماتے رہے ہیں۔ ان نادان دوستوں کے درمیان اگر آپ چند دن گذارتے تو آپ بھی یہی سمجھتے کہ نواز شریف کی حکومت بس اب چند دنوں کی مہمان ہے۔ پچھلے سال ماہ رمضان سے پہلے ایک دوست نے کہا کہ اگر حکومت کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو آپ کھانا کھلائیں گے اور اگر برقرار رہی تو میں آپ کو کھانا کھلاؤں گا۔ میں نے عرض کیا کہ جناب عالی مجھے آپ کو کھانا کھلانے میں کوئی عار نہیں، لیکن نواز شریف کی حکومت اتنی جلدی برطرف نہیں کی جاسکتی۔ ہمارے بعض دوست ان واقعات کے گواہ ہیں۔ پھر اسی گروہ کے ایک سرکردہ فرد کا بیان پچھلے دنوں پڑھا کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دلوائیں گے، جس پر میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ اس کے لئے پارلیمنٹ کے دو تہائی اراکین کے ووٹوں کی ضرورت ہے اور آپ قاف لیگ اور تحریک انصاف کے اتحادی ہیں نہ کہ نواز لیگ اور پی پی پی سمیت دیگر جماعتوں کے،،، تو آئینی حقوق کیسے دلوائیں گے؟؟ ایسے نابالغ اور نوزائیدہ نیم صحافی نیم مذہبی سیاستدان کے بارے میں کچھ نہ لکھنا ہی بہتر۔پچھلی مرتبہ بھی عرض کرچکا تھا کہ شیعہ جماعتوں کو ملک کی تمام سیاسی قوتوں اور خاص طور پر پارلیمانی نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا ہوں گے اور اچھے ورکنگ ریلیشن شپ کے بغیر آئینی حقوق کا حصول ممکن نہیں۔ ہمارے ایک اور دوست نے یہاں ایک انٹرویو میں بہت سی باتیں کہیں، میں صرف ایک حقیقت بیان کروں گا کہ چوہدری شجاعت حسین کے ایک عوامی جلسے میں کہا گیا کہ ان میں ’’حسین کی شجاعت ہے۔‘‘ اور پھر یمن پر سعودی جارحیت میں اسی شجاعت حسین نے کھل کر آل سعود کی حمایت کی، یہ بات ریکارڈ پر ہے۔ جب آپ عوام کے سامنے ہوتے ہیں تو وہاں آپ کو حق بولنا چاہیئے جیسا کہ امام خمینی اور امام خامنہ ای کی روش ہے۔ وہاں کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم آسمان سے ستارے توڑ لائیں گے بلکہ ہر مرتبہ کہا گیا کہ یہ راہ کٹھن ہے، دشوار ہے، ہمیں اپنے اس موقف کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر آپ کو چار سے چھ نشستوں پر ہی کامیابی ملنا تھی تو آپ کا بیان یہ نہیں ہونا چاہیے تھا کہ کل کا سورج یوں طلوع ہوگا، حق کی مکمل فتح ہوگی، کیونکہ جب ایسا نہیں ہوتا تو پھر بغلیں جھانکنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رہتا۔ پھر عوام کاحوصلہ بلند نہیں بلکہ پست ہوجاتا ہے۔مجلس وحدت مسلمین نسبتاً بہتر جماعت ہے۔ اس کی فعالیت نے ملت کو ایک حد تک متحرک ضرور کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک رکن صوبائی اسمبلی ایک شیعہ جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوا۔ گلگت بلتستان میں بھی آپ کو محدود کامیابی ملی۔ عوام میں ایک حلقہ آپ سے محبت رکھتا ہے، آپ کی اپیل پر سڑکوں پر نکل آتا ہے، ووٹ ڈالتا ہے۔ عوام کا یہ وسیع حلقہ اپنی ذمے داری کو پہچانتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، علامہ امین شہیدی اور دیگر قائدین نظام ولایت فقیہ کی سیاسی روش اور مختلف ایشوز پر اس کے نیریٹیوز کو اچھی طرح سے اپنی تنظیم میں متعارف کروائیں۔ سیاسی و اخلاقی تربیت کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ شعلہ بیانی نہیں بلکہ خمینی بت شکن اور خامنہ ای استکبار شکن کی طرح کا با رعب، لب و لہجہ اور سنجیدہ انداز گفتگو اپنانے کی مودبانہ درخواست ایک اور مرتبہ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔ اگر آپ کسی کے بارے میں کوئی ڈیڈ لائن دے دیں کہ یہ حکومت کا آخری سال ہوگا اور ایسا نہ ہو تو اس سے آپ کی ساکھ خراب ہوگی، آپ کا امیج اچھا نہیں رہے گا۔آخر میں ایک اور مشورہ دوں کہ گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی میں آپ قائد حزب اختلاف کا عہدہ روٹیشن پر رکھ دیں، یعنی ایک سال شاہ بیگ رہیں، دوسرے سال عمران ندیم، تیسرے سال مجلس وحدت مسلمین، چوتھے سال اسلامی تحریک وغیرہ۔ کوئی پہلے یا کوئی بعد میں، ترتیب بدلی جاسکتی ہے۔ اس طرح سبھی کو اپوزیشن سیاست کا براہ راست تجربہ ہوجائے گا اور اس طرح اعتماد بھی قائم رہے گا۔ شاہ بیگ کی حمایت کے ساتھ شروع ہونے والے اس عمل کو ملک گیر سطح پر وسعت دی جائے اور فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ روابط میں اگر تلخی تھی تو اب اسے دور ہوجانا چاہیے اور دیوبندی حضرات کو بھی شیعہ مسلمانوں کی وسعت قلبی کا اعتراف کرنا چاہیے۔