تحریر: سید اسد عباس تقویانسانوں کا بالعموم اور مسلمانوں کا بالخصوص یہ وطیرہ رہا ہے کہ ہم اپنے مابین موجود پائی جانے والی نابغہ روزگار شخصیات سے تجاہل عارفانہ برتتے ہیں اور جب وہ شخصیت ہمارے مابین نہیں رہ جاتی تو ہم بڑے بڑے سیمینارز، ورکشاپس اور پروگرامات کے ذریعے اس شخصیت کے گن گاتے ہیں۔ شاید اسی سبب ہمارے بارے میں مثل مشہور ہے کہ ’’ہم مردہ پرست قوم ہیں۔‘‘ ویسے تو ہمارے معاشرے میں ایسی شخصیات کئی ہوں گی، لیکن ایک شخصیت جن سے میں گذشتہ چار سالوں سے متعارف ہوں اور ان کے علمی کاموں کو دیکھ رہا ہوں، ہمارے اسی رویے کا شکار ہیں۔ میں کسی بھی علم کا ماہر نہیں ہوں، تاہم اپنے قلیل مطالعہ کے تناظر میں کہ سکتا ہوں کہ جو شخصیت آج میرا موضوع سخن ہے، ان کی تحریریں، علمی خدمات نہایت انفرادی نوعیت کی ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک نئی علمی کاوش ’’اصول کافی کا ترجمہ و شرح ‘‘ مجھ تک پہنچی ہے۔ ڈاکٹر محسن نقوی کی تحریروں کا میں گذشتہ چار سال سے قاری ہوں، علاوہ ازیں ان سے ہونے والی چند ایک ملاقاتوں میں براہ راست طور پر بھی ان کی گفتگو سے بہرہ مند ہونے کا موقع ملا۔ اصول کافی کا اردو ترجمہ برصغیر پاک و ہند میں متعدد افراد نے کیا ہے ایک مجموعہ ’’کتاب مستطاب الشافی ترجمہ اصول کافی‘‘ کے عنوان سے سید ظفر حسن نقوی نے ترجمہ کیا، جسے ظفر شمیم پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔جیسا کہ قارئین کرام کے علم میں ہے کہ اصول کافی مکتب تشیع کی کتب اربعہ میں سے ایک ہے۔ یہ کتاب احادیث رسول و اہلبیت کا مجموعہ ہے، جس میں تقریباً سولہ ہزار احادیث موجود ہیں۔ اصول کافی کے علاوہ دیگر کتب احادیث میں الاستبصار، من لا یحضر الفقیہ اور تہذیب الاحکام شامل ہیں۔ علم حدیث کی مجھے الف بے کا بھی پتہ نہیں، صرف اتنا جانتا ہوں کہ کچھ احادیث صحیح ہوتی ہیں کچھ مرسل، کچھ موثق ہوتی ہیں کچھ ضعیف اور کچھ مجہول۔ اصول کافی ہی نہیں تمام کتب احادیث کے اندر ایسی احادیث موجود ہیں جو مختلف درجہ پر ہیں، علمائے احادیث کے ان درجات کے حوالے سے بھی مختلف نظریات ہیں۔ علم حدیث وہ علم ہے جس کے ذریعے وہ روایات جو کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اہل بیت ؑ سے منقول ہیں، کی علمی اصولوں کے تحت چھان پھٹک کی جاتی ہے اور درست روایات کا تعین کیا جاتا ہے۔اس علم کی ابتداء اوائل اسلام سے ہی ہوگئی تھی، علمائے حدیث نے اس موضوع پر انتہائی عرق ریزی کرکے ایسے قوانین وضع کئے، جس کے تحت کسی بھی حدیث کی صحت یا ضعف کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ علم حقائق تک رسائی کے لئے نہایت اہم ہے، اسی لئے مسلمانوں نے ابتداء سے ہی اس علم کی ترویج اور فروغ پر اپنی محنتیں صرف کیں۔ ایک عام قاری کی حیثیت سے جب اصول کافی کے ترجمے کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں احادیث کے ہمراہ کہیں اس کی نوعیت کا تذکرہ نہیں ملتا۔ عربی اور فارسی زبان میں اس حوالے سے بہت سا کام کیا گیا ہے، ہر ہر کتاب حدیث کی کئی کئی شرحیں موجود ہیں۔ اسی طرح اسناد حدیث پر بھی کافی محنت موجود ہے، لیکن اردو دان قارئین اس نعمت سے ہمیشہ سے محروم رہے ہیں۔ ہم تک تو اصل منابع احادیث کا پہنچنا ہی کافی مشکل رہا۔ قیام پاکستان کے بعد سے لوگوں نے اس میدان میں زحمات کا سلسلہ شروع کیا۔ نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ، اصول کافی اور اسی قبیل کے بنیادی ماخذ ترجمہ ہو کر اردو دان حضرات کے ہاتھوں تک پہنچنا شروع ہوئے۔لیکن یہاں کئی ایک مشکلات نے جنم لیا۔ علم حدیث، علم رجال اور دیگر متعلقہ علوم سے عدم آگاہی کے سبب اکثر اردو دان قارئین ان کتب میں درج ہر حدیث کو درست سمجھتے ہوئے اپنی تحریروں، تقاریر اور دیگر مقامات پر بیان کرنے لگے۔ ڈاکٹر محسن نقوی نے ایک قدم آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور اصول کافی میں درج احادیث جو زیادہ تر عقائد اور کلامی مباحث سے متعلق ہیں، کو نہ صرف علم حدیث کی روشنی میں اسناد کے ہمراہ درج کیا بلکہ ان کی شرح بھی تحریر کی۔ یہ علمی کام بہت انفرادیت کا حامل ہے، جس کے بارے میں خود ڈاکٹر محسن نقوی اپنی کتاب کے مقدمے میں تحریر کرتے ہیں: الکافی کے ترجمے اور پھر اس کی شرح، ضبط اسناد، فوائد رجالیہ، لغات و کلمات کی تشریح، آرائے محدثین عظام میں محاکمہ انتہائی مشکل اور دیدہ ریزی کا کام ہے، جبکہ یہ مباحث ایک مقام پر کسی عربی شرح میں بھی نہیں ملتے، فارسی اور اردو کا دامن تو بالکل ہی ان سے خالی ہے۔وہ لکھتے ہیں: ہمارا ارادہ ہے کہ شرح کی ہر جلد پر ایک مقدمہ، علم حدیث، درایت و رجال وغیرہ سے متعلق لکھیں، تاکہ اردو میں مکتب اہل بیت کے فن حدیث و رجال کا تفصیلی تعارف ہو جائے اور شرح میں آنے والی اصلاحات و مباحث کو بھی سمجھنے میں آسانی ہو۔ اس سلسلے میں ان امور کا خیال رکھا ہے: فوائد رجالیہ کے تحت اسناد حدیث پر بحث کرکے حدیث کا درجہ متعین اور اختلاف علماء درج کر دیا ہے۔ اسناد میں مبہم راویوں اور ان کی کنیتوں کی وضاحت، معاجم رجالیہ سے کر دی ہے۔ جہاں ضروری ہوا وہاں دیگر اسناد کی تخریج کرکے حدیث کے ضعف کا جبران کر دیا ہے۔ علم الرجال میں ہم بنیادی طور پر آیۃ اللہ العظمٰی سید الطائفہ سید حسین البروجردی اور استاذ الامام ابو القاسم الخوئی کے مکتب کے پیرو ہیں۔ اللغۃ عربی زبان کی مستند ترین لغات مثلاً لسان العرب، القاموس المحیط، تاج العروس، کتاب العین، تہذیب اللغۃ نیز لغات الحدیث پر موجود تقریباً تمام معاجم مثلاً ابن الاثیر، ابن الجوزی، الزمخشری، الھروی، محمد طاہر الفتنی، ابن قتیبۃ وغیرہ کو سامنے رکھتے ہوئے الفاظ و تراکیب کی تشریح کر دی ہے اور حوالہ بھی لکھا ہے۔ کلامی، فلسفی اور اعتقادی مسائل کو الکافی کی شروع اور ان فنون پر لکھی گئی معتبر کتابوں سے درج کر دیا ہے۔ بعض مقامات ایسے آئے ہیں اور آئیں گے جن میں برادران اہل سنت کی کتب تفسیر، حدیث فقہ و کلام سے استفادہ کرنا اور ان سے تعرض ضروری تھا، وہ شائستہ انداز سے کر دیا ہے۔ ڈاکٹر محسن نقوی نے اپنی کتاب کے مقدمے میں علم حدیث کا تعارف کچھ اس انداز سے پیش کیا ہے کہ مجھ جیسا علم حدیث سے نابلد انسان بھی علم حدیث کے حوالے سے کچھ معلومات حاصل کرکے اس پر لکھنے کے قابل ہوگیا ہے۔ مقدمہ کتاب میں محدثین کے طبقات، اولاد آئمہ کے محدثین، جرح تعدیل، قبول روایت کی شرائط، ثقہ راویوں کی طرف رجوع اور چار اہم محدثین کے عناوین کے ذیل میں اس فن کا ایک اجمالی تعارف پیش کیا گیا ہے، جسے پڑھ کر کوئی بھی قاری اس فن کی اہمیت اور اس کے لئے کی گئی کاوشوں سے آگاہ ہوسکتا ہے۔ علم حدیث پر لکھی گئی چند کتب اور محدثین کی کاوشوں کا حوالہ بھی مقدمے کا خاصہ ہے۔ ڈاکٹر محسن نقوی اس عنوان سے تحریر کرتے ہیں: کتب اربعہ کے بعد حدیث پر تالیفات کا سلسلہ چلتا رہا اور درمیان میں بہت بڑے بڑے نام سامنے آئے ہیں، لیکن ان میں چار نام انتہائی اہم ہیں، جنہوں نے علم حدیث کی بے انتہا خدمت کی اور ان کی کتب سے کوئی مفسر، کوئی محدث، کوئی فقیہ مستغنی نہیں ہوسکتا۔ یہ چار نام الحر عاملی، میرزا حسین نوری، حسین البروجردی اور سید ابوالقاسم الخوئی کے ہیں، جن کی کتب بالترتیب وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل شریعہ، مستدرک الوسائل، جامعہ احادیث الشیعہ اور معجم رجال الحدیث ہیں۔ مقدمہ میں جناب ڈاکٹر محسن نقوی نے ان ضخیم اور نہایت بیش قیمت کتب کا بہت خوبصورتی سے تعارف اور ان کتابوں کے امتیازات کو بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے ان چاروں شخصیات کا بھی اجمالی تعارف ذکر کیا ہے، جو قارئین کے لئے نہایت سود مند ہے۔ کتاب کا مقدمہ اور پہلی جلد شائع ہوچکی ہے۔ خداوند کریم ڈاکٹر صاحب کو یہ عظیم کام مکمل کرنے اور مزید علمی خدمات سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔چند ماہ قبل ڈاکٹر صاحب سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی۔ میں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے ان کے خاندانی اور علمی پس منظر کے بارے میں سوال کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا تعلق ہندوستان کے شہر نصیر آباد کے علمی خانوادے، خاندان اجتہاد سے ہے۔ یہ ہندوستان میں سادات کی قدیم تریم آبادی ہے، جہاں نقوی سادات 410ھ میں آباد ہوئے۔ سید دلدار علی نقوی نصیر آبادی اس خاندان کے پہلے مجتہد تھے۔ برصغیر کے معروف عالم دین اور فقیہ علامہ علی نقی نقوی المعروف علامہ نقن، علامہ نصیر اجتہادی و دیگر اسی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ ڈاکٹر محسن نقوی علامہ علی نقی نقوی کے پوتے ہیں۔ آپ نے اپنی دینی تعلیم کا آغاز ملتان سے کیا، پھر سرگودھا میں کچھ عرصہ زیر تعلیم رہنے کے بعد نجف اشرف تشریف لے گئے، جہاں آپ نے آیت اللہ العظمٰی سید ابو القاسم الخوئی سے کسب فیض کیا۔ ڈاکٹر سید محسن نقوی نے نجف اشرف میں تکمیل تعلیم اور اجازہ کے حصول کے بعد امریکہ کا سفر کیا، جہاں آپ نے بائبیلک سائنسز میں پی ایچ ڈی کی۔ آپ عربی، انگریزی، فارسی اور اردو پر عبور رکھتے ہیں۔ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے ہیں۔ میں قطعاً بھی اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات کا تعارف پیش کروں۔ ان کی تحریریں خود ان کا تعارف ہیں، تاہم جب سے ان کی کتاب شرح اصول کافی میرے پاس آئی ہے، مجھے یہ احساس بار بار تڑپاتا تھا کہ اس درجے کی شخصیت کا یوں گمنان رہنا درست نہیں ہے۔ میں نے بہت انتظار کیا کہ کوئی اہل علم ڈاکٹر صاحب کی اس علمی کاوش پر کچھ تحریر کرے گا۔ پھر اللہ نے مجھے یہ حوصلہ دیا کہ میں خود ہی ڈاکٹر صاحب کے اس علمی کارنامے کے حوالے سے اپنے تاثرات تحریر کروں۔ میری یہ تحریر ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو بیان نہیں کرتی بلکہ یہ میرا وہ تاثر ہے جو ان کی تحریریں پڑھ کر ابھرا ہے۔ خداوند کریم ڈاکٹر صاحب جیسی نابغہ روزگار شخصیات کا سایہ ہم پر قائم و دائم رکھے اور انہیں زیادہ سے زیادہ مذہب حقہ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)