Quantcast
Channel: اسلام ٹائمز - مقبول ترین عناوین :: مکمل نسخہ
Viewing all articles
Browse latest Browse all 31734

انتہا پسندی کی ہر شکل مذموم ہے

$
0
0
تحریر: ثاقب اکبرکل (16 مارچ 2016) اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں ادارہ تعلیم و تحقیق کے زیراہتمام ایک مشاورتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس ادارے کے سربراہ ملک کے ممتاز دانشور خورشید ندیم ہیں۔ ادارہ تعلیم و تحقیق معاشرتی فکر کی ارتقا کے ساتھ حکومتی سطح پر تبدیلی کے نظریئے کی بنیاد پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ راقم بھی مشاورتی سطح پر اس ادارے کے ساتھ وابستہ ہے۔ مختلف شعبہ ھای زندگی کے اہل فکر و دانش اور صاحبان علم و فضل اس ادارے سے وابستہ ہیں۔ مختلف الخیال افراد اس کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں اور آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ تبادلۂ خیال کے نتیجے میں افہام و تفہیم کی بہتر فضا پیدا ہوتی ہے، جس کا انعکاس بعدازاں مختلف صورتوں میں ہوتا ہے۔ کل کی نشست میں ایک دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آئی، جب مذہبی انتہا پسندی کے ساتھ سیکولر انتہا پسندی کی مذمت بھی شروع ہوگئی۔مذہبی انتہا پسندی کی تو بہت سی صورتیں سامنے ہیں اور اس کی تلخیاں انسانی زندگی کے ہر پہلو کو تلخ کئے ہوئے ہیں۔ تکفیریت و دہشت گردی اسی انتہا پسندی کے مظاہر ہیں، لیکن سیکولر انتہا پسندی کا عذاب بھی کسی صورت کم نہیں کہا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بحث و تمحیص کے بعد مجلس کا حاصل کلام یہی تھا کہ انتہا پسندی کی ہر شکل مذموم ہے۔ ہماری مشکل فقط انتہا پسندی کی فکری و نظریاتی سطح پر نہیں ہے بلکہ جب سیاسی و معاشی ضروریات کے لئے انتہا پسندی پیدا کی جاتی ہے، اسے فروغ دیا جاتا ہے اور اسے شدت پسندی کے عملی مظاہر میں ڈھالنے کے لئے وسائل فراہم کئے جاتے ہیں تو انتہا پسندی انسانی معاشرے کے لئے عذاب کی صورت اختیار کرتی ہے۔ انسانی حقوق کے مدافع ادارے اور کارکن، فکری انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے مصروف عمل دانشور اور اعتدال و ہم زیستی کے مبلغ جب تک اس امر کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے کہ انتہا پسندی کن کے مقاصد پورے کرتی ہے، اس وقت تک اس کے خلاف موثر اور راست اقدام نہیں کرسکیں گے۔ہم اکثر کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں اپنا دشمن قریب ہی سے مل جائے اور ہم اسے اپنے نشانے پر لے لیں۔ آرزو تو اچھی ہے لیکن اے کاش ہمیشہ ایسا ہو جائے۔ ہمارے اردگرد عموماً پتھر ہوتے ہیں، پتھر پھینکنے والے ہاتھ کہیں دور ہوتے ہیں۔ انتہا پسندی کی مبلغ زہر آلود زبانیں نزدیک ہوسکتی ہیں، لیکن ان کے کام و دھن کو تر کرنے والا روغن کہیں دور سے آیا ہوتا ہے۔ قریب والوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن اصل ہدف کسی اور کو ہوناچاہیے۔ ’’ثمن قلیل‘‘ پر بِک جانے والے قابل مذمت ہیں لیکن ’’ثمن قلیل‘‘ فراہم کرنے والے بے رحم قارونوں اور حکم دینے والے فرعونوں کو اپنا اصل دشمن سمجھنے کی ضرورت ہے، ورنہ بند کا شگاف بند کئے بغیر بستی سے پانی نکالنے رہنے سے سیلاب ختم نہیں ہوسکے گا۔ بات کہیں اور نہ نکل جائے۔ سیکولر انتہا پسندی کی تفہیم بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی کہے کہ زبردستی حجاب پہنانا انتہا پسندی ہے تو ہم پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا زبردستی حجاب اتروانا انتہا پسندی نہیں۔ اگر کوئی پہلی صورت کو مذہبی انتہا پسندی کہے تو کیا دوسری صورت کو سیکولر انتہا پسندی نہیں کہا جاسکتا؟ترکی کا معاشرہ جس تجربے سے گزارا ہے، وہ اس ضمن میں مسلمانوں کے ایک سماج میں موجود سیکولر انتہا پسندی کے مختلف مظاہر کو سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ترکی کی پارلیمینٹ میں ایک خاتون کو اس لئے نشست سے محروم کر دیا گیا تھا کہ وہ پارلیمینٹ میں آتے ہوئے حجاب ترک کرنے کو تیار نہیں تھی۔ یہ 2008ء کی بات ہے، جب ترکی کی نومنتخب پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں نجم الدین اربکان کی فضیلت پارٹی کی ایک رکن مجلس حجاب اوڑھے ہوئے پارلیمنٹ ہال میں داخل ہوگئیں۔ یہ محترمہ مریم کواچکی تھیں۔ پارلیمنٹ کا یہ اجلاس حلف برداری کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ محترمہ کواچکی جب حجاب پہنے ایوان میں داخل ہوئیں تو ہال میں حکمران پارٹی کے ممبران نے زور زور سے نعرے لگائے: واپس جاؤ، واپس جاؤ۔ اسی دوران میں نامزد وزیراعظم بلند ایجوت بھی احتجاج میں شامل ہوگئے۔ احتجاج کا سلسلہ شدید ہونے پر سپیکر نے اجلاس کچھ دیر کے لئے ملتوی کر دیا، تاہم جب دوبارہ اجلاس شروع ہوا تو بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، جبکہ خاتون رکن پارلیمنٹ حجاب کرکے پارلیمنٹ میں اپنی آمد کو حق بجانب قرار دیتی رہیں۔ بعد ازاں صدر اور فوجی جرنیلوں نے بھی خاتون کی طرف سے حجاب پہننے کو سیکولر روایات کے برعکس اقدام قرار دیا۔ ترکی میں اس مسئلے پر بہت شور شرابا ہوا۔مریم کواچکی جدید تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمان خاتون ہیں۔ سیکولرزم کے بارے میں ان کی تشریح کو ترکی میں انسانی حقوق کی تنظیم نے تو قبول کر لیا، لیکن فوج اور حکمران پارٹی نے اسے قبول نہ کیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مریم کواچکی ان دنوں کہاں ہیں، شاید وہ ترکی سے ہجرت کرکے کہیں اور چلی گئی تھیں، تاہم انھوں نے پارلیمنٹ کے ہنگامے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:  ’’میرے اسکارف کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک سیاسی علامت ہے، لیکن یہ اسکارف تو میں اپنے عقیدے اور ایمان کی وجہ سے اوڑھتی ہوں اور یہ میرا ذاتی انتخاب ہے۔ مجھے اسمبلی کا حلف لینے سے روک دیا گیا ہے، آخر کیوں؟ یہ تو بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور ترکی کی حکومت نے انسانی حقوق کے اس چارٹر پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ مجھے میرے انسانی حقوق سے محروم کرکے موجودہ حکومت نے ترکی کو دنیا بھر میں بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ اسکارف پہننے سے آئین کی کسی دفعہ کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ فضیلت پارٹی نے انتخابات کی مہم کے دوران میں انسانی حقوق کی واضح طور پر وکالت کی تھی اور میں اپنے ووٹروں کے جذبات و احساسات کی نمائندگی کر رہی ہوں۔‘‘ سیکولر انتہا پسندی کے ایک نمونے کے طور پر ہم جرمنی میں یکم جولائی 2009ء کو ڈرسڈن کی ایک عدالت میں پیش آنے والا ایک واقعہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں۔ مصر کی ایک خاتون جنھیں بعد میں شہیدۂ حجاب کہا گیا، مریم شربینی حجاب اوڑھے ہوئے اپنے شوہر کے ساتھ عدالت میں موجود تھیں، جب انھیں ایک جرمن الکس ڈبلیو نے حجاب سے اپنی شدید نفرت کے اظہار کے طور پر قتل کر دیا۔ مغربی اخبارات نے اگرچہ اس واقعے کو اپنے اوراق میں کم جگہ دی، لیکن عالم اسلام میں اس کے خلاف بہت آواز بلند کی گئی۔ خاص طور پر مصر کے تعلیم یافتہ افراد نے جن میں وکلاء کی تنظیمیں شامل ہیں، اس قتل کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ گاہے ہم اپنے رویوں سے دوسروں کو انتہا پسند بنا دیتے ہیں۔ اگر انتہا پسندی کے خلاف انتہا پسندانہ رویہ اختیار کیا جائے تو پھر انتہا پسندی ختم نہیں ہوسکتی، ہمیں انتہا پسندی کے خلاف ہوش مندانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے، معاشرے کو اعتدال پسند بنانے کے لئے اٹھنے والوں کو خود اعتدال پسند بن کر دکھانا ہوگا۔

Viewing all articles
Browse latest Browse all 31734

Latest Images

Trending Articles



Latest Images

<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>