تحریر: سید اسد عباسبرصغیر میں مسلمان تقریباً ہزار سال پہلے وارد ہوئے۔ یہ سرزمین مسلمانوں کی آمد سے قبل مختلف اقوام و قبائل نیز مذہب کا مسکن تھی۔ مسلمانوں کی آمد سے یہاں کی مقامی آبادی ایک نئے دین سے متعارف ہوئی، تاہم تقریباً ہزار سال برصغیر پر حکومت کرنے کے باوجود مسلمان اس خطے میں اقلیت رہے۔ یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے برصغیر میں اپنے دین کو زبردستی نافذ نہیں کیا۔ ہندو اور مسلمان ان ہزار برسوں میں باہم مل جل کر رہتے رہے، اس کی ایک وجہ مسلمانوں کا عنان اقتدار میں ہونا تھا۔ جیسے ہی مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور برصغیر میں غیر مسلم حکمران آئے ہندوؤں کے مسلمانوں کے بارے میں رویے بدل گئے۔ جسے مسلمان قائدین، مفکرین نے شدت سے محسوس کیا۔ مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کی فکر ہوئی، سر سید احمد خان نے برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل کا حل دو قومی نظریے کی صورت میں پیش کیا، تاہم یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سر سید احمد خان وہ پہلے شخص نہ تھے، جنہوں نے برصغیر میں آباد دو بڑی اقوام کا تصور دیا بلکہ سر سید احمد خان سے بہت پہلے مسلمان سائنسدان اور مورخ البیرونی نے اپنی کتاب ’’کتاب الہند‘‘ میں لکھا: ’’ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں۔‘‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ البیرونی کی علمی تحلیل کو سر سید احمد خان نے ایک سیاسی نظریئے کے طور پر اپنایا اور مسلمانوں کے مسائل کا حل قرار دیا۔ سرسید کا دو قومی نظریہ آل انڈیا مسلم لیگ کا منشور و ہدف اور بعد میں برصغیر میں دو الگ ریاستوں کے قیام کا باعث بنا۔ 23 مارچ 1940ء کا دن اس علمی تجزیے اور سیاسی تحلیل کے عملی منشور میں ڈھل جانے کا دن ہے۔ 21 تا 24 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا 27واں اجلاس منعقد ہوا۔ یہ اجلاس تاریخی لحاظ سے بہت اہم تھا۔ اس اجلاس میں ہندوستان کے کونے کونے سے پچاس ہزار سے زائد مندوبین نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس موقع پر قائد اعظم نے فی البدیہہ خطبہ صدارت دیا۔ اپنی طویل تقریر میں قائد اعظم نے ملک کے سیاسی حالات کا تفصیلی جائزہ لیا اور کانگریسی لیڈروں سے اپنی گفتگو اور مفاہمت کی کوششوں کی تفصیلات بتائیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہندو اور مسلم فرقے نہیں بلکہ دو قومیں ہیں۔ اس لئے ہندوستان میں پیدا ہونے والے مسائل فرقہ وارانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی نوعیت کے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان آزادی چاہتے ہیں، لیکن ایسی آزادی نہیں جس میں وہ ہندوؤں کے غلام بن کر رہ جائیں۔ یہاں مغربی جمہوریت کامیاب نہیں ہوسکتی، کیونکہ ہندوستان میں صرف ایک قوم نہیں بستی۔ چونکہ یہاں ہندو اکثریت میں ہیں، اس لئے کسی بھی نوعیت کے آئینی تحفظ سے مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔ ان مفادات کا تحفظ صرف اس طرح ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم انڈیا میں تقسیم کردیا جائے۔ ہندو مسلم مسئلے کا صرف یہی حل ہے۔ اگر مسلمانوں پر کوئی اور حل ٹھونسا گیا تو وہ اسے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کریں گے۔‘‘قائد اعظم کی اس تاریخی تقریر سے اگلے روز یعنی 23 مارچ 1940ء کو شیر بنگال مولوی فضل الحق نے وہ تاریخی قرارداد پیش کی، جسے قرارداد لاہور کہا جاتا ہے، جو آگے چل کر قیام پاکستان کی بنیاد قرار پائی۔ اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ’’کوئی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے لئے اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگا، جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل و ملحق یونٹوں پر مشتمل علاقوں کی حد بندی نہ کی جائے اور ضروری علاقائی ردوبدل نہ کیا جائے اور یہ کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، انھیں خود مختار ریاستیں قرار دیا جائے۔ جس میں ملحقہ یونٹ خود مختار اور مقتدر ہوں اور یہ کہ ان یونٹوں کی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کے لئے ان کے صلاح و مشورے سے دستور میں مناسب و موثر اور واضح انتظامات رکھے جائیں اور ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں ان کے اور دیگر اقلیتوں کے صلاح مشورے سے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔‘‘قرارداد لاہور کو آل انڈیا کانگریس کے زیر اثر اخبارات نے طنزیہ طور پر ’’قرارداد پاکستان‘‘ کا عنوان دیا اور ہندو طبقہ کی جانب سے اس پر بے حد غم و غصے کا اظہار کیا گیا، لیکن مسلمانوں نے پروا نہ کی اور قائداعظم کی قیادت میں رواں دواں منزل مقصود کی طرف بڑھتے رہے۔ انھیں یقین واثق تھا کہ منزل دور نہیں۔ بالآخر قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو اسلامی مملکت ’’پاکستان‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستان کا قیام محض ایک تاریخی حادثہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی گروہ کی سیاسی فتح بلکہ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اپنے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھنے کی خواہش کا حاصل ہے۔ درحقیقت قائد اعظم کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان بنا کر اپنی تہذیب، مذہبی اقدار اور ثقافت کو بچا لیا۔ انہیں بجا طور پر اس بات کا خوف تھا کہ اگر انگریز ہمیں ایک متحدہ ہندوستان میں جمہوریت کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے تو بہت جلد ہندو اکثریت ہمارے لئے جینے کی راہیں مسدود کر دے گی۔ ہماری مذہبی، تہذیبی و ثقافتی آزادی اور شناخت نہیں بچ پائے گی۔ اس کا ثبوت بعد ازاں بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ اکثریت کے طرز عمل نے بھی فراہم کیا۔الحمدللہ! آج ہم اس آزاد پاکستان میں سانسیں لے رہے ہیں، جس کا خواب ہمارے اکابر نے دیکھا۔ وہ اپنا فرض نبھا کر اپنی آنے والی نسلوں کو ایسا امکان مہیا کرگئے، جس میں ہم بحیثیت مسلمان مذہبی، ثقافتی، تہذیبی، معاشی و معاشرتی عنوان سے آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور عالمی سطح پر بحیثیت قوم اپنا کردار ادا کرسکیں، تاہم ہم نے اپنی بے بصیرتی اور نااہلی سے اپنی منزل مراد کھو دی۔ ہم فرقہ واریت، لسانیت، اقربا پروری اور عیاشی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔ آج جب کہ ہم یوم پاکستان کے اہم دن کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ اکابر نے ہمیں کیا دیا اور ہم آنے والی نسلوں کو کیا دے کر جا رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم خدا کی اس نعمت عظمٰی کا احساس کریں اور اسے بہتر بنانے کے لئے خلوص دل سے کام کریں، تاکہ آنے والی نسلیں ہمیں بھی اچھے نام سے یاد رکھیں۔