تحریر: ساجد علی گوندلSajidaligondal88@gmail.comحیران کیوں ہو؟۔۔۔۔ میں مسلسل دیکھ رہا ہوں کہ یہ انسان کبھی ادھر تو کبھی ادھر جا رہے ہیں۔ ذرا یہ بازار کی چہل پہل تو دیکھو ۔۔ یہ گاڑیوں کا سمندر ۔۔۔ وہاں نہیں اپنی دائیں طرف دیکھو ۔۔ ہاں میں بھی تو وہںھ دیکھ رہا ہوں۔ کیوں تمھیں نظر نہیں آرہا ۔۔۔ وہ دیکھو بچے سکول جا رہے ہیں۔ ہاں ہاں یہاں تو کوئی صرف، خرید رہا ہے یا بیچ رہا ہے ۔۔۔ وہ دیکھو وہاں وہ ریڑی والا کتنی بلند آواز لگا رہا ہے ۔۔۔ پر وہاں دوسری طرف تو غور کرو ۔۔ بہت بڑی شیشے والی دکان والا تو خاموشی سے بیٹھا ہے ۔۔ ۔ اسے تو زیادہ آواز لگانی چاہے نا؟ اس کی دکان تو بڑی ہے ۔ ۔۔۔ کیوں ۔۔آج ایسے سوال کیوں کر رہے ہو۔۔ ۔۔؟ نہیں میں سوچ رہا ہوں کہ کیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔؟ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔۔۔۔ وہ دیکھو موچی ۔۔ سبزی والا ۔۔ لوہار ۔۔ قصاب ۔۔ کپڑے والا و دیگر سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں ۔ ۔۔ زندگی تو معمول کے مطابق چل رہی ہے ۔۔ کچھ نہیں ہوا، تو پھر آج میں اپنے ساتھ خود ہی کیوں باتیں کئے جا رہا ہوں ۔۔۔۔؟ یہ آج مجھے کیا ہوگیا ہے، میرے ذہن میں اتنے ڈھیر سارے سوال کیوں جنم لے رہے ہیں ۔۔۔؟آج مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ یہاں زندگی نہیں ہے ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ مجھے کچھ ہوگیا ہے ۔۔۔ میں ٹھیک نہیں ہوں ۔۔۔۔ زندگی تو تحرّک و حرکت اور کھانے پینے کو کہتے ہیں نا ۔۔۔ ہاں وہ تو ہے یہاں ۔۔۔ یہ سب تومیں دیکھ رہا ہوں ۔۔۔۔ تو پھر میرے استاد کیوں کہتے ہیں کہ کائنات کے ہر ذرّے میں زندگی موجود ہے ۔۔۔۔ نہیں ۔۔ وہ غلطی پر ہیں ۔۔۔ دیکھو یہ زمین و آسمان، پہاڑ، درخت اور بڑی بڑی وادیاں یہ سب مردہ ہیں ۔۔۔ فقط انسان زندہ ہے ۔۔۔ ارے ذرا اپنی دوسری طرف تو دیکھو ۔۔۔ کیا ۔۔۔ وہ خاتون اُس بچے سے کیا کہہ رہی ہے ۔۔۔ لگتا ہے وہ اس کی ماں ہے۔ بیٹا۔۔۔ نہیں ۔۔نہیں ۔۔ نہیں ۔۔۔ ماں ۔۔۔ جب تک تم نہیں کھاو گے، میں بھی نہیں کھاوں گی ۔۔۔۔۔۔ بیٹا غصے سے۔۔۔۔۔ مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔۔ ماں ۔۔۔ تڑپ کر، آنکھوں میں آنسو۔۔۔ تُو نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ۔۔۔۔ آجا تُو جو کہے گا میں لے کر دوں گی ۔۔۔۔کچھ تکرار کے بعد بیٹا ماں کے ساتھ چل دیا ۔۔۔ کیا یہ ماں مسلمان تھی ۔۔۔؟نہیں، نہیں ۔۔۔۔ ماں تو ماں ہوتی ہے، مسلمان ہو یا کافر ۔۔ میں اس منظر سے حیرت میں پڑگیا ۔۔۔ یہ کیا تھا ۔۔۔۔۔ اتنی بے قراری و بے چینی اور تڑپ کس لئے ۔۔۔؟ ایک وقت کا کھانا نہ کھانے سے تو انسان کو کچھ نہیں ہوتا ۔۔ اور وہ بچہ کس قدر پُر اعتمادی سے ضد کئے جا رہا تھا۔ جیسے اسے یقین ہو کہ جب تک وہ نہیں آئے گا، وہ خاتون بھی نہیں جائے گی ۔۔۔۔ نہیں، نہیں ۔۔ یہاں اس ظاہری منظر کے پس پردہ کچھ اور راز ہے، جو مجھے آنکھوں سے دکھائی نہیں دے رہا ۔۔۔۔۔ یقیناً احساس، محبت و شفقت جیسے مفاہیم نے ان کو آپس میں جوڑ رکھا ہے ۔۔۔۔ بالکل ۔۔۔ اسی بناء پر ہی تو ایک طرف سے تقاضا اور دوسری طرف سے عطاء ہے ۔۔۔۔ ابھی اسی الجھن میں ہی تھا کہ اچانک ۔۔۔۔۔ ٹھک ۔۔۔۔ کسی کے گرنے کی آواز تھی ۔۔۔ پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔ ایک تقریباً 70 سالہ بوڑھا کہ جس کی کمر خم ہونے کے باوجود ایک بھاری بوری اٹھائے ٹھوکر لگنے کی وجہ سے گرتا ہے ۔۔۔۔ یہ منظر زیادہ حیران کن تھا ۔۔۔ آخر کیا سبب ہے کہ اس عمر میں اسقدر مزدوری ۔۔۔؟ کیا اسکو اپنے لئے دو وقت کی روٹی چاہے۔۔۔؟ ہرگز نہیں ۔۔۔ یہاں بھی بات کچھ اور ہے ۔۔۔۔۔ پر کیا۔۔۔؟ بھُول گئے ۔۔۔ یہ تو گھر کا سرپرست ہے ۔۔۔۔ سرپرست یعنی کیا ۔۔۔؟ ارے پاگل سرپرست یعنی بڑا ہونا کچھ ذمہ داریوں کو جنم دیتا ہے ۔۔۔ ہاں، ہاں سمجھا ۔۔۔ جیسے اللہ ہمارا سرپرست و خالق ہے تو اب اسکی ذمہ داری ہے کہ وہ ہماری تمام ضروریات کو پورا کرے ۔۔۔۔۔ کیا یہ سرپرست مسلمان ہے ۔۔۔ ارے نہیں، نہیں سرپرست تو ذمہ دار ہوتا ہے، مسلمان ہو یا کافر ۔۔۔۔ تو پھر اس کو اسی احساس ِ ذمہ داری نے ہی اس سخت کام پر مجبور کیا ۔۔۔۔ مَیں یہ سب چیزیں دیکھ رہا تھا، پر درست سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اچانک میری نظر بازار میں ایک ایسے شخص پر پڑی کہ جس کے چاروں طرف لوگوں کا ہجوم تھا ۔۔۔۔ یہ پھر مقام حیرت ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کون ہے ۔۔۔۔۔؟ اور لوگ اسقدر اسکے گرد کیوں جمع ہیں۔۔۔؟ پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ ایک استاد ہے کہ جو ان کے بچوں کو درس پڑھاتا ہے ۔۔۔ لو پھر تو یہ وہی شخص ہے کہ جو ہمارے اندر پیار و محبت، امن و آشتی جیسے مفاہیم کو اجاگر کرتا ہے ۔۔۔یعنی یہ شخص معاشرے کے درمیان باہمی تعلق کا اہم ذریعہ ہے ۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ استاد درست اور میں ہی غلطی پر تھا ۔۔۔ زندگی چلنے پھرنے و کھانے پینے کا نام نہیں بلکہ ماں بیٹے میں پائے جانیوالے احساسِ محبت، سرپرست خانہ میں موجود احساس ِ ذمہ داری و استاد کے اُجاگر کئے ہوئے شعور اور اسی طرح معاشرے کے دیگر طبقات کے باہمی تعلقات کا مجموعہ ہے اور اسمیں کسی رنگ و نسل، مذہب و مسلک کی کوئی تقسیم نہیں ہے ۔۔۔۔ ارے زندگی تو زندگی ہے کافر ہو یا مسلمان ۔۔۔۔ پر یہ کیا ۔۔۔۔۔؟ یہ لوگ کون ہیں جو سات دن سے اتنی دھوپ و گرمی میں بھوک برداشت کئے ہوئے اسلام آباد کی سڑکوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔۔؟ کیا ان کے پاس رہنے کے لیے گھر یا کھانے کے لئے روٹی نہیں ۔۔۔؟ کیا یہ پاگل ہیں ۔۔؟ نہیں، نہیں بھئی پاگل کو بھی گرمی و سردی و بھوک کا احساس تو ہوتا ہے ۔۔۔ تو پھر یہ لوگ کون ہیں ۔۔۔ یہ کیا چاہتے ہیں ۔۔۔ کیا ان کو بھوک نہیں لگتی ۔۔۔؟ کیا ان کا کوئی ماں جیسا شفیق نہیں کہ ان کی ضد کو پورا کرکے ان کو گھر لے جائے ۔۔۔؟ کیا ان کا کوئی سرپرست و حاکم نہیں کہ جو ان کی ضرورت کو پورا کرے اور ان کو تحفظ دے ۔۔۔۔؟ کیا یہ مسلمان ہیں ۔۔ کیا ان کا سرپرست مسلمان ہے ۔۔؟ کیا کشتی میں سوراخ ہونے سے صرف یہی ڈوبنے والے ہیں۔۔؟ کیا معاشرے میں باقی سب زندہ ہیں اور یہی مردہ ہیں کہ جو اپنی زندگی ڈھونڈنے نکلے ہیں ۔۔۔ کیا کراچی، کوئٹہ، پشاور، پارا چنار و پاکستان کے گرد و نواح میں مرنے والوں کا کوئی سرپرست نہیں ۔۔ کیا یہ سب مسلمان ہیں ۔۔؟ نہیں ۔۔ نہیں ۔۔ نہیں۔۔ یہاں ماں بھی مسلمان، بیٹا بھی مسلمان ۔۔ سرپرست بھی مسلمان تو رعایا بھی مسلمان ۔۔ استاد بھی مسلمان تو شاگرد بھی مسلمان ۔۔ ظالم بھی مسلمان تو مظلوم بھی مسلمان ۔۔ یہاں قاتل بھی مسلمان تو مقتول بھی مسلمان ۔۔۔ یہ تو شہر ہی مسلمانوں کا ہے، یہاں کوئی کافر نہیں۔۔ ہاں۔۔ ہاں۔۔۔ یہی ٹھیک ہے۔۔ آج کائنات کا ذرّہ ذرّہ صدا دے رہا ہے کہ ۔۔۔ تم مرو یا جیؤ ہمارا کیا ۔۔ کیونکہ آج کائنات کا ہر ذرّہ زندہ ہے، فقط انسان مردہ ہے۔۔