اسلام ٹائمز۔ 400 سے زائد پاکستانی ملازمین سعودی عرب کے شہر دمام میں پھنسے ہوئے ہیں، تاہم ان میں سے کچھ ملازمین نے پاکستان پہنچ کر سکھ کا سانس لیا ہے۔ 26 سالہ محمد تنویر تقریباً چار ماہ تک مکہ سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر شمسی کیمپ میں ناگفتہ حالات گزارنے کے بعد حال ہی میں جدہ سے پاکستان واپس آئے ہیں۔ محمد تنویر کراچی کے علاقے لیاقت آباد نمبر 10 کے رہائشی ہیں، انہوں نے بذریعہ فون ڈان کو اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے بتایا کہ کس طرح وہ تقریباً 400 پاکستانی ملازمین کے ساتھ سعودی عرب کے ایک کیمپ میں پھنسے ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے سعودی عرب میں ہر ماہ 800 سعودی ریال تنخواہ ملتی تھی، جو مجھے گھر بھیجنے کے لئے کافی ہوتے تھے، وہ سعودیہ میں گذشتہ 3 سال سے ملازمت کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ سعودی اوگر لمیٹڈ کمپنی میں کام کرتے تھے، 6 ماہ قبل ان کے ساتھ کمپنی میں کام کرنے والے ساتھی نے بتایا کہ اس کمپنی کا تعمیراتی کام تھوڑے دن کے لئے روک دیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے ایسا لگتا تھا کہ کمپنی میں تعمیراتی کام جلد بحال ہوجائے گا لیکن دن، ہفتے اور پھر مہینے گزر گئے اور دو ماہ گزرنے کے بھی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی۔اوگر لمیٹڈ کمپنی میں بحیثیت مستری کام کرنے والے محمد تنویر نے بتایا کہ ہمیں اس دوران صرف کیمپ تک محدود رہنے کے لئے کہا گیا، کمیپ میں تقریباً 400 ملازمین رہتے تھے اور جتنا ممکن ہوسکتا تھا ہم ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے تھے، اس کے بعد ہمیں لکڑی کے ایک چھوٹے سے گھر میں منتقل کر دیا گیا، جہاں صرف 3 افراد کے رہنے کی جگہ تھی، لیکن ہمیں ایک کمرے میں 10 افراد کے ساتھ رہنا پڑتا تھا کیونکہ ہمارے پاس رہنے کے لئے کہیں کوئی اور ٹھکانہ نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ماہ قبل اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ جدہ میں پاکستانی سفارتخانے گئے، جب ہم نے انھیں اپنی حالت زار کے بارے میں بتایا تو حکام نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کس نے سعودی عرب میں ملازمت کرنے کے لئے کہا ہے۔ تنویر نے بتایا کہ اس کے بعد ہم پاکستانی سفارتخانے نہیں گئے، بعدازاں ہم نے سعودی حکام سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ عام طور پر سعودی حکام سے رابطہ کرنے پر ڈر اور خوف محسوس ہوتا ہے لیکن حکام نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا اور وہ کچھ دنوں تک ہمیں کھانا فراہم کرتے رہے، تاہم کچھ دنوں کے بعد انھوں نے کھانا دینا بند کر دیا۔ تنویر نے بتایا کہ کنسٹرکشن کمپنی نے ہمارا اقامہ (مقیم کارڈ، شناختی کارڈ، تارکین وطن کے لئے اجازت نامہ) بھی ہم سے لے لیا تھا اور جب ہم نے پولیس سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ محمد تنویر نے بتایا کہ پھر میں نے بونس کے ساتھ اپنے 6 ماہ کی تنخواہ کو چھوڑ کر پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔محمد اظہر حسین شاہ جدہ میں گذشتہ 3 برس سے بن لادن گروپ آف کمپنیز کے کنٹریکشن ڈپارٹمنٹ کے ساتھ وابستہ تھے۔ وہ سعودی عرب، جدہ، طائف اور دمام میں 12 ہزار سے زائد پاکستانی ملازمین میں سے ایک ہیں جو تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور کمپنیوں کے دلوالیہ ہوجانے اور مالی مسائل کے بعد مستقبل کی غیر یقینی کا شکار ہیں۔ کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز ون کے رہائشی محمد اظہر حسین شاہ نے فون پر بتایا کہ 6 ماہ قبل ان کے دوست نے انھیں اطلاع دی تھی کہ کمپنی اپنے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی روک دے گی۔ انہوں نے بتایا کہ کمپنی نوٹس کے ذریعے باقاعدہ طور پر ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہمیں ہر حال میں کام کرنے کے لئے کمپنی جانا ہوگا اور غیر حاضری کی صورت میں ان کی تنخواہوں میں کٹوتی کر دی جائے گی۔ اظہر نے بتایا کہ میں جدہ میں ایک اوسط گھر میں رہتا تھا، لیکن اب جدہ اور مکہ کے قریب قائم کیمپوں اور میرے حالات میں کوئی فرق نہیں تھا، میرے پاس 6 ماہ سے گھر پیسے بھیجنے کے لئے کھوٹا سکہ بھی نہیں تھا، میں جدہ میں 4 ہزار سے 1 لاکھ ریال تک کماتا تھا، لیکن میں اب کچھ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ میں نے اپنی تمام جمع پونجی گھر کے اخراجات میں خرچ کر دی تھی۔ اس کے بعد حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ پاکستانی ملازمین کو دمام اور ریاض کے کیمپوں میں فاقہ کشی کرنی پڑی، پھر گذشتہ ماہ 22 جولائی کو پاکستانی ملازمین نے سعودی اور پاکستانی حکام کی توجہ اس معاملے کی طرف دلانے لئے جدہ اور طائف میں کیمپس کے باہر احتجاج کیا تھا۔نوید احمد خان کا تعلق آزاد جموں و کشمیر سے ہے، انہوں نے بھی سعودی عرب میں پاکستانی ملازمین کے ساتھ کیمپوں میں احتجاج میں حصہ لیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ حکام نے ان کے احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کیمپوں میں مزید پریشانی نہ پھیلائیں، ہم تو صرف اپنے حقوق کے لئے احتجاج کر رہے تھے لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ بھکاریوں جیسا سلوک کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی بھی میرا پاسپورٹ کمپنی کے قبضے میں ہے، نہ میں کہیں جاسکتا تھا اور نہ وہاں مزید رہ سکتا تھا، میں وہاں مکمل طور پر ہھنس گیا تھا۔ ڈان کو تمام ملازمین نے بتایا کہ پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے کہا تھا کہ ریاض میں موجود پاکستانی سفارت خانہ دمام میں قائم سعد گروپ آف کمپنیز کی جانب سے پاکستانی ملازمین کو تنخواہیں جاری نہ کرنے کے معاملے اور اس حوالے سے ملازمین کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھا رہا ہے۔سعودی شہریوں سمیت مختلف ممالک کے 8000 ملازمین متاثر ہوئے ہیں، جن میں پاکستانی ملازمین کی تعداد 500 ہے، جو مختلف علاقوں میں موجود ہے۔ پاکستانی سفیر منظور الحق وہ واحد شخص تھے جنھوں نے کیمپوں میں موجود ملازمین کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی تھی۔ سعودی عرب میں اس وقت تقریباً 26 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں، راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے سلیم ستی حال ہی میں سعودی عرب سے واپس آئے ہیں، وہ ریاض کی الجزیرہ کمپنی میں مزدوری کرتے تھے، تاہم سعودی عرب میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث ان کی کمپنی بھی مالی خسارہ کا سامنا کرتے ہوئے دیوالیہ ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ یمن میں جاری جنگ کی وجہ سے مذکورہ سعودی کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں، جس کے بعد ان کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو ان کے حقوق اور تنخواہوں کی ادائیگی سے صاف انکار کر دیا تھا۔