ثاقب حسین بنگش کا تعلق شلوزان کے معروف باقر خیل خاندان کی خان فیملی سے ہے۔ ایگریکلچرل یونیورسٹی پشاور سے ایم فل کرنے کے دوران طلباء کے حقوق کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔ اسی اثناء میں دو سال تک آئی ایس او کے ڈویژنل صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے، جبکہ دو ہفتے قبل تحریک حسینی کے قائم مقام صدر کی حیثیت سے فرائض سنبھال چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ تحریک حسینی اور علاقائی مسائل کے حوالے سے اہم گفتگو کی ہے، جسے نذر قائین کر رہے ہیں۔ ادارہاسلام ٹائمز: 11 مئی کے حوالے سے تحریک حسینی اور حکومت کے مابین ایک فیصلہ ہوچکا ہے، پھر کیا سبب ہے کہ اس سانحہ کے اسیران رہا نہیں ہو رہے۔؟ثاقب حسین بنگش: بے شک تحریک حسینی اور انتظامیہ کے مابین حکومت ہی کے تشکیل کردہ جرگہ کے توسط سے فیصلہ ہوئے دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ہمارے اسیران، جن میں سے بعض تو بہت ہی کمزور جبکہ بعض بیمار ہیں، جیلوں میں پڑے ہیں۔ حالانکہ فیصلہ سے قبل جب جرگہ بار بار پانچ افراد کی حوالگی کی بات کر رہا تھا، ہم نے زہر کا پیالہ پی کر پانچ افراد حوالے کئے۔ جرگہ نے نامزد افراد کی حوالگی پر باقی تمام قیدیوں کی فوری رہائی کا ذمہ لیا تھا، لیکن دو ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اب تک اسیران رہا نہیں ہوئے۔اسلام ٹائمز: پانچ افراد کی حوالگی کو زہر کا پیالہ کہنے سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔؟ثاقب حسین بنگش: امام خمینی نے صدام کے ساتھ صلح کرنے کو زہر کا پیالہ سمجھا تھا، کیونکہ وہ صدام کے ساتھ صلح کرنے کو تیار نہیں تھے، تاہم مجبور ہوکر انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔ تو حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کوئی جرم تو نہیں کیا تھا، ہم نے احتجاج کیا تھا اور وہ بھی کسی حساس علاقے میں نہیں، حساس شہر میں نہیں بلکہ ایک قبائلی علاقے کے بازار سے بھی چھ کلومیٹر دور ایک دیہاتی علاقے میں۔ اس پر حکومت نے ہمارے پرامن احتجاجیوں پر فائر کھول دیا، ہمارے 3 افراد کو قتل اور ایک درجن کو زخمی کر دیا۔ اسکے علاوہ ہمارے 48 افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا، چنانچہ ایسی صورتحال میں مزید افراد کی حوالگی کا مطالبہ دنیا کے کسی قانون میں نہیں، تاہم جرگہ کے بار بار کہنے نیز علاقائی صورتحال کی وجہ سے ہم مجبور ہوگئے اور مزید پانچ افراد کو حوالے کیا، لیکن اسکے بعد بھی فیصلے پر آج تک کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔اسلام ٹائمز: آپ نے تحریک حسینی کی ذمہ داری ایک کڑے وقت میں سنبھالی ہے، بتائیں! تحریک کو متعدد بحرانوں سے نکالنے کیلئے کیا لائحہ عمل تیار کرینگے۔؟ثاقب حسین بنگش: دیکھیں! میں تحریک حسینی کا ٹمپریری اور قائم مقام صدر ہوں۔ تحریک کے صدر محترم یوسف آغا کی جیل سے رہائی کے بعد اصل پالیسی تو وہی وضع کریں گے۔ تاہم اپنی بساط کے مطابق تحریک حسینی کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا۔ باقی بات رہی درپیش بحرانوں کی تو عرض یہ ہے کہ تحریک حسینی کسی بحران کا شکار نہیں۔ بلکہ الحمدللہ تحریک 11 مئی جت حادثے سے پہلے کی نسبت اس وقت بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔ تنظیم سازی کا عمل تیزی سی جاری ہے۔ اس سے پہلے جو دوست ناراض ہوچکے تھے، وہ سب دوبارہ واپس آچکے ہیں اور تحریک کے دیگر افراد کے ساتھ شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔ اس دفعہ 36 ارکان پر مشتمل ایک مضبوط کابینہ سمیت تمام اہم کونسلز تشکیل دی جا چکی ہیں۔ جن میں سپریم کونسل، مذاکراتی کونسل، مشاورتی کونسل اور مرکزی کونسل قابل ذکر ہیں، تو ایسی کوئی بات نہیں اور الحمدللہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ امتحانات سے، قربانیوں سے خصوصاً خون سے اقوام اور تنظمیں کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط ہوجاتی ہیں۔اسلام ٹائمز: کرم کی تاریخ میں شاید پہلی بار جرگہ میں سے ایک فریق حکومت ہے، تو حکومت کیساتھ طے پانے والے معاہدے کی رو سے آپ اور سرکار کے درمیان کونسی اہم بات طے ہوئی ہے، جسکی وجہ سے دونوں فریق مطمئن ہوگئے ہیں۔؟ثاقب حسین بنگش: معاہدے کی کاپی ابھی تک ہمیں نہیں ملی ہے۔ تاہم ملکی سطح پر درپیش خدشات کے پیش نظر حکومت کے بعض مطالبات کو ہم نے تسلیم کیا، جبکہ قومی معاملات سمیت تنظیم کے خلاف ناجائز پراپیگنڈے سے گریز پر مشتمل اور بعض ہمارے دیگر حقوق کو حکومت نے تسلیم کیا۔ تاہم اصل مسودہ کو وقت سے قبل منظر عام پر لانے پر جرگہ نے دونوں فریقین پر پاپندی عائد کی ہے۔ اسلام ٹائمز: کرم میں موجود دیگر تنظیموں کیساتھ تعلقات کے حوالے سے کیا کہنا چاہییں گے۔؟ثاقب حسین بنگش: دیکھیں، میں اس سے قبل آئی ایس او کا ڈویژنل مسئول رہ چکا ہوں، آئی او میں بھی کام کرچکا ہوں، نیز ایم ڈبلیو ایم کے لئے بھی غیر رسمی کام کیا ہے۔ نظریاتی تنظیموں کے ساتھ اس سے پہلے بھی واسطہ رہا ہے۔ چنانچہ تحریک میں رہتے ہوئے تمام علاقائی مذھبی اور سیاسی تنظیموں سے بھرپور تعلق رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی علاقائی تنظیموں پر مشتمل یکجہتی کونسل موجود ہے۔ جس میں ہر تنظیم سے دو دو بندے لئے جا چکے ہیں اور ہر ماہ انکے اجلاس بھی ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ اسی عمل کو مضبوط بنایا جائے گا۔ نیز اس کونسل کے علاوہ بھی میری کوشش ہوگی کہ قریہ قریہ جاکر تنظیموں سے وابستہ افراد کو چن چن کر تحریک میں لانے کی کوشش کروں اور انکی خوابیدہ صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا جائے گا۔اسلام ٹائمز: ایف سی آر کے حوالے سے مختلف رپورٹس آرہی ہیں کہ اسے ختم کیا جا رہا ہے، فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے آپکا موقف ہے۔؟ثاقب حسین بنگش: اس پر تو کئی سال سے کام ہو رہا ہے، میرے خیال میں یہ بچوں کی آنکھ مچولی کے سوا کچھ نہیں۔ حکومت نے وفاقی وزراء سمیت کئی اہم انٹیلیکچول پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دیکر اسے ایجنسیوں کے صدر مقامات بھیجا اور وہاں ایف سی آر پر ڈیبیٹ کی گئیں۔ حکومت کو بخوبی علم ہے کہ یہ قبائلی عوام کے ساتھ ایک ظلم ہے اور یہ بھی علم ہے کہ اس ظلم پر تمام مہذب اقوام صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں۔ اسکے باوجود اس پر کانفرنسیں کرانا اور اسکے بعد بھی اسے عملی جامہ نہ پہنانے سے حکومت کی نیت بخوبی عیاں ہے۔