جناب ثاقب اکبر معروف محقق، مصنف اور دانشور ہیں۔ وہ علمی تحقیقی ادارہ البصیرہ کے چیئرمین اور پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہیں۔ کونسل کے احیاء میں ان کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ علاوہ ازیں وہ تحریک فیضان اولیاء کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔ معروف علمی مجلہ ماہنامہ پیام کے مدیر اعلٰی ہونے کے علاوہ عالمی حالات پر بھی ان کے تجزیات اور انٹرویوز شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے مشرق وسطٰی کی موجودہ صورتحال اور بالخصوص ایران کے عالمی طاقتوں سے ہونے والے مذاکرات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے استفادے کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہاسلام ٹائمز: ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان ہونیوالے معاہدے کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، یہ بھی بتایئے گا کہ پاکستان پر اس معاہدے کے کیا مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔؟ثاقب اکبر: میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ 1979ء کے انقلاب کے بعد سب سے بڑا واقعہ ہے، انقلاب اسلامی کے تسلسل میں امریکہ نے ایک پالیسی اختیار کی تھی کہ براہ راست آکر ایران کو طاقت، رعب، فوج اور علاقے میں شیعہ سنی مسائل پیدا کرکے یا خطے میں عرب و عجم کو ہوا دیکر روکا جائے، لیکن ان کی تمام تدبیریں الٹی ہوگئیں، ایران آگے بڑھتا چلا گیا، جن قوتوں پر بڑی طاقتوں کو انحصار تھا، ان کا مستقبل اب مخدوش ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مغرب کے ایک دانشور نے کہا تھا کہ The End of History یعنی اس کا کہنا تھا کہ تضادات سے تاریخ آگے بڑھتی ہے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سوویت یونین اور اشتراکیت کے درمیان جو سرد جنگ تھی وہ ختم ہوگئی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام امریکہ اور مغرب کی قیادت میں چلتا رہے گا، لیکن وہ بھی سلسلہ ختم ہوگیا ہے، چین ایک نئی اقتصادی طاقت بن کر ابھرا ہے، انہوں نے روس کو دبانے کی کوشش کی ہے، ان کی کوشش رہی کہ روس ایک فرما بردار اتحادی کی حیثیت سے آگے چلے، لیکن دانشور حضرات بہت پہلے کہتے تھے کہ اقتصادی حالات نے سوویت یونین کا شیرازہ بکھیرا ہے، یعنی روسیوں کی ایک بڑی طاقت بن کر ابھرنے کے ارمان ختم نہیں ہوئے، روس ایک بڑا پلئیر بن کر سامنے آنے کی کوشش کریگا۔آپ دیکھیں کہ ایران کے چین، جاپان اور روس کے ساتھ تعلقات بڑھتے چلے جا رہے تھے، تو پھر اہم سوال ابھرتا ہے کہ ان پابندیوں کا نقصان کس کو ہوا ہے، ظاہر ہے کہ امریکہ کو ہوا ہے، کیونکہ مغرب کے مادی مفادات ہوتے ہیں جن سے وہ محروم ہوئے، یہ ٹھیک ہے کہ ایران کو اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کی انقلابی قیادت میں جو جرات تھی، اس میں کوئی کمی نہیں آئی، ان کے انقلابی اہداف میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، اس سے یہ ہوا ہے کہ خطے میں اقتصادی مسائل کے باوجود وہ ڈٹے رہے، وہ جس کو حق و صداقت سمجھتے رہے ہیں، اس پر آج بھی قائم ہیں، ایرانی قیادت صیہونیت اور ان کے ایجنٹوں کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں، اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، صیہونی ریاست کے قیام کے خلاف ڈٹے رہنا خود علاقے کے مضتضعف اور کمزور لوگوں کیلئے ایک بڑا پیغام دیا ہے، ہم اتنا محسوس نہیں کرتے لیکن دوسری جنگ عظیم میں پسے ہوئے لوگ اسے زیادہ محسوس کرتے ہیں، یہی وجہ بنی ہے کہ بڑی طاقتوں نے مشرق وسطٰی میں فتنہ و فساد زیادہ برپا کیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے شفٹ آف پیرا ڈائم کا وقت محسوس کیا ہے، انہیں پتہ چل گیا ہے کہ اب ہم یوں نہیں چل سکتے، ایران کو بجائے ہم دبائیں، اب ان کیساتھ بات کرنا پڑیگی، کچھ ان کی ماننی پڑیگی، کچھ اپنی منوانی پڑے گی، یوں یہ بات ٹیبل پر گئی ہے۔ میرے خیال میں ایرانی قیادت نے جو کم سے کم اہداف مقرر کئے تھے، اس سے انہوں نے کہیں زیادہ اہداف حاصل کر لیئے ہیں۔اسلام ٹائمز: اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان اس معاہدے سے کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔؟ثاقب اکبر: جی مجھے بھی بحیثیت پاکستانی اس سوال میں بہت زیادہ دلچسپی ہے بلکہ اگر یوں کہوں تو بےجا نہ ہوگا کہ مجھے اصل دلچسپی ہی اسی میں ہے۔ آپ دیکھیں کہ جنہوں نے پابندیاں لگائیں، انہوں نے پھر بھی کوئی نہ کوئی بات چیت کا راستہ باقی رکھا، ترکی ان کا اتحادی ہے، لیکن انہوں نے ایران سے گیس حاصل کی ہوئی ہے۔ اسی طرح یورپ کو گیس جا رہی ہے، جنہوں نے ایران پر پابندیاں لگائیں تھیں، ان میں بہت ساروں نے اپنے تعلقات کو کسی نہ کسی نہج پر باقی رکھا ہے، لیکن پاکستان نے اپنے ہمسائے ملک سے توانائی کے معاملے پر تعاون حاصل کرنے کی راہ کو ترک کیا، جبکہ پاکستان ایک بدترین توانائی کے بحران سے گزر رہا ہے۔ اس کا پاکستانی قوم کو نقصان اٹھانا پڑا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اور ہماری قیادت نے جرت مندانہ اقدامات کئے ہیں تو آج ہم ایٹمی طاقت بنے ہیں، اگر جرات مندانہ اقدامات نہ کرتے تو کبھی امریکہ ہمیں اس کو حاصل نہ کرنے دیتا، اس کے باوجود کہ ہم پر پابندیاں لگیں اور پابندیوں کے حوالے سے ہمیں زیادہ تجربات تھے۔ ایران تو جوہری بم بنانے کیخلاف رہا ہے جبکہ ہم نے بھارت کی وجہ سے ایٹمی طاقت بنے ہیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور انڈیا این پی ٹی کے رکن ممالک نہیں ہیں جبکہ ایران رکن ممالک میں شمار ہوتا ہے۔یہ کہنا کہ مغرب کو تحفظات تھے، اس لئے آگے نہیں بڑھ سکتے تھے، تو بھائی اگر مغرب کی ڈکٹیشن لیتے تو پھر ہم ایٹم بم بنانے کے وقت بھی قبول کرلیتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم انکار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، ہم ملک کے مفاد میں یہ اقدام اٹھا سکتے تھے جو نہیں اٹھایا۔ ہم نے اربوں روپے کا انرجی کرائیسز کی وجہ سے نقصان اٹھایا، ہمیں چاہیئے کہ ہم گیس پائپ لائن مکمل کرتے، تاکہ اس نقصان بچ جاتے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایران کسیاتھ ہمارے دس ارب ڈالر تک کے تجارت کے امکانات موجود ہیں، جس پر دونوں ملکوں کے صدور اس پر اتفاق کرچکے ہیں جبکہ اس وقت ہماری تجارت فقط ایک ارب ڈالر تک ہو رہی ہے، تو یہ کام کیا جاسکتا تھا جو نہیں کیا گیا۔ اگر ایران کیساتھ تعلقات بڑھائیں تو ہمارے پاس اس سے بھی کہیں زیادہ امکانات موجود ہیں۔ حالیہ معاہدے کے بعد دفتر خارجہ، مشیر خارجہ، وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی، پیٹرولیم کے وزیر کے بیانات حوصلہ افزا ہیں۔ اس سے امید بڑھی ہے کہ ہماری حکومت آگے بڑھنے جا رہی ہے، فقط گیس پائپ لائن کی تعمیر سے پاکستان پانچ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرسکے گا۔ اب ہم شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ بن گئے ہیں، یمن کے حوالے سے ہم نے بہترین فیصلہ کیا ہے، یہ تمام چیزیں اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان ایک باوقار ریاست بننے کی طرف گامزن ہے۔اسلام ٹائمز: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایران امریکہ کیساتھ معاہدہ کرکے دراصل 35 سالہ پرانے امریکہ مردہ باد یا مرگ بر امریکہ کے نعرے سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں۔؟ثاقب اکبر: میں خیال میں نعرے کی ماہیت اور لفظ میں فرق ہوتا ہے، نعرے کی ماہیت یہ تھی کہ ایران امریکہ کی استعماری حیثیت قبول نہیں کرتا، اس حوالے سے لاشرقیہ اور لاغربیہ کا نعرہ اس معاملے کو زیادہ واضح کرتا ہے، اُس وقت بھی ایران نے سوویت یونین کیلئے اپنا جھکاو کیا نہ ہی امریکہ کیساتھ، ایران کے وزارت خارجہ کے گیٹ پر اب بھی نہ شرقی نہ غربی فقط جمہوری اسلامی لکھا ہوا ہے۔ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ آو ہم اور تم اس ایک بات پر اکٹھے ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے، اس میں ذات خدا میں کسی کو شریک نہ بنائیں اور ایک دوسرے کو ارباب نہ بنانا ہے۔ کوئی ایک دوسرے کا رب بننے کی کوشش نہ کرے، یعنی جو اس کی استعماری حیثیت ہے، اس کو قبول نہ کرنا ہے۔ یہ ایران کا اسٹینڈ تھا، ایران کا یہ اسٹینڈ کبھی نہیں رہا کہ امریکہ ختم ہوجائے یا امریکی عوام کو ختم کر دیا جائے۔ آپ دیکھیں کہ ایران کے جتنے بھی صدور اور وزراء امریکہ کے دورے پر گئے ہیں اور وہاں یونیوسٹیوں کے دورے کئے ہیں اور خطابات پیش کئے ہیں، اس میں انہوں نے بات کو وضاحت کیساتھ بیان کیا ہے کہ ہم امریکی عوام کا خاتمہ نہیں چاہتے بلکہ امریکی حکام کی مسلم کش پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایرانی صدور اور وزراء نے بڑی وضاحت کیساتھ اپنے نعرے کو واضح کیا ہے۔ اب اسی نعرے کا عملی مظہر صیہونی حکومت کو تسلیم نہ کرنا ہے، اس پر کوئی آدمی اعتراض کرے کہ ایران نے اس کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے، یا اسے جائز سمجھا ہو، یا فلسطین کی مقاومت سے ہاتھ پیچھے کر لیا ہو، ہم دیکھتے ہیں کہ ایران استعماری طاقتوں کے مقابلے میں خم ٹھونک کر کھڑا ہے۔اسلام ٹائمز: سعودی عرب اور اسرائیل کے ردعمل کو کیسے دیکھ رہے ہیں، اور بالخصوص یمن کی صورتحال کو کیسے دیکھ رہے ہیں، اڑھائی ماہ بیت گئے ہیں۔؟ثاقب اکبر: میرے خیال میں اسرائیل کو تو ایسے ہی کہنا چاہیئے تھا، آپ دیکھیں کہ امریکہ نے کہا ہے کہ ہر ریاست اپنے مفادات کو دیکھتی ہے تو اس مسئلہ میں بھی امریکہ نے اپنے مفادات کو دیکھا ہے کہ اسرائیل کیساتھ ان کے تعلقات اب بھی وہی ہیں، پالیسی میں بھی خطے میں پہلی ترجیح حاصل ہے، جو ثانوی ترجیحات ہیں اس میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں، جہاں تک سعودی عرب کی بات کی ہے کہ سعودی عرب بہت مسائل کا شکار ہے، آپ دیکھیں کہ اڑھائی مہینے کی یمن پر لغار سے کچھ حاصل نہیں ہوا، ان کا خیال تھا کہ اس کو پھیلا کر دیگر ملکوں میں داخل ہوسکیں گے تو وہ نہیں ہوسکا، پاکستان اور ترکی نے کھلے بندوں شرکت نہیں کی۔ یہ دو بڑے پلئیر تھے جن کا علاقائی اور عالمی سطح پر کوئی مقام تھا، دوسرے چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، جیسے گلف ممالک ہیں، ان کے تو بس میں ہی کچھ نہیں ہے، ان کیلئے سعودی عرب ہی سب کچھ ہے، مال و دولت کے بل بوتے پر کسی بڑی قوم کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ یمن ایک قدیمی قوم ہے۔ اس کی ایک تاریخ ہے، ان کو تسخیر نہیں کرسکے۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ افغانوں کو کوئی تسخیر نہیں کرسکتا، اسی طرح ہمیں بھی یہ بات یمن کے معاملے میں سمجھ آنی چاہیئے۔ یہ وقتی طور پر ان پر ظلم ہوئے ہیں، ان کے لاکھوں بچے اسکول نہیں جا رہے، اسٹریکچر تباہ ہوا ہے لیکن سعودی عرب شکست کھا چکا ہے، سعودی عرب اس جنگ میں کچھ حاصل نہیں کرسکا۔اسلام ٹائمز: آپ کیا دیکھتے ہیں کہ کیا امریکہ افغانستان سے جاتے ہوئے داعش کا فتنہ چھوڑ کر جا رہا ہے، جیسے عراق میں صورتحال بنی ہوئی ہے۔؟ثاقب اکبر: ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ کیونکہ جیسے آئینی حکومت کی بساط پڑی ہے، ان کی منتخب حکومت اور اس نے آئین بنانا شروع کیا ہے، امریکہ کے چلے جانے کے باوجود وہاں آئین ایک وجود رکھتا ہے، جسے عوام کی تائید حاصل ہے، اسی طرح افغانستان میں آئینی حکومت وجود پاچکی ہے، اور آئین بن چکا ہے اس لئے طالبان ان کے ساتھ شئیر ہولڈر تو بن سکتے ہیں لیکن مکمل حکومت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ یہ مری میں شروع ہونے والے مذاکرات اسی چیز کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آئینی حکومت باقی رہے گی۔ طالبان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، خود خطے کے ممالک اس بات کو سپورٹ کرتے ہیں۔ پاکستان بھی اصولی طور پر اس کو سپورٹ کرتا ہے۔