Quantcast
Channel: اسلام ٹائمز - مقبول ترین عناوین :: مکمل نسخہ
Viewing all articles
Browse latest Browse all 31704

سی پیک حقائق جو عوام کو معلوم نہیں

$
0
0
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچوزیراعلٰی خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے سی پیک کے حوالے سے عوام سے حقائق چھپائے اور ملک کے غدار وہی ہیں جنہوں نے سی پیک کو متنازعہ بنایا ہے، ہم اپنا حق مانگتے ہیں اور حق مانگنے والوں کو کوئی غدار نہیں کہتا۔ اس ملک کو بلڈنگز اور سڑکوں کے بجائے نظام کی ضرورت ہے، تاکہ عام لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائی جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ہر پاکستانی کے لئے خوشی کی خبر ہے۔ اقتصادی راہداری کے حوالے سے ملک میں کافی عرصے سے بحث چل رہی ہے۔ کوئی اس پر اعتراضات اٹھا رہا ہے تو کوئی اس کے فوائد گنوا رہا ہے۔ اس شور شرابے میں سی پیک سے متعلق حقیقی معلومات عام پاکستانی تک اس طرح نہیں پہنچ سکیں، جس طرح پہنچنی چاہیے تھیں۔ اسی طرح سینیٹر جہانزیب جمالدینی کی جانب سے اپنی حالیہ منظور کردہ تحریک التواء کہ پاکستان اور چین کے درمیان معاہدہ کے چیدہ نکات پر بحث کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان معاہدوں کے پوائنٹس چھپائے جا رہے ہیں، گوادر پر تین سو میگاواٹ بجلی کے منصوبہ پر کام کیا جا رہا ہے، جو کہ بمشکل گوادر کی ہی بجلی پورے گا، لیکن اس کے علاوہ کسی منصوبے پر کام نہیں ہو رہا۔ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک پر معاہدوں کے حوالے سے سینٹ کو بتایا جائے کہ اصل حقائق کیا ہیں۔سینیٹر امیر کبیر خان نے کہا ہے کہ اگر سی پیک پر بات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ سی پیک کے خلاف ہیں، منسٹر صاحب سی پیک کے حوالے سے کوئی مثبت جواب نہیں دیتے، بلوچستان کے حوالے سے کوئی فائدہ شامل ہے یا نہیں، اس کا جواب دیا جانا چاہئے۔ ویسٹرن روٹ پر وزیراعظم سمیت ان کی کابینہ نے باتیں کیں، لیکن گراؤنڈ پر کوئی کام نظر نہیں آ رہا ہے، چین کو 40 سال کے لئے ٹیکس سے استثنٰی دیا جا رہا ہے، جس سے اپنی کمپنیاں تباہ ہو کر رہ جائیں گی اور اپنی ملکی کمپنیوں کو ٹیکس فری نہیں کیا جاتا، کیونکہ کہ گوادر بلوچستان میں ہے، اسی لئے اس کا فائدہ بھی بلوچستان کو زیادہ ہونا چاہئے۔ سینیٹر الیاس بلور نے بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں کب تک بے وقوف بنایا جائے گا، سی پیک کی سڑک میں ہمیں صرف 40 کلومیٹر دی گئی ہے۔ اس وقت گوادر کے چار برتھ کام کر رہے ہیں، گوادر پورٹ پر ایک بھی برتھ نہیں بنا اور اس کی فیزیبلٹی رپورٹ بھی تیار ہوئی ہے، سی پیک کے 46 ملین میں سے 11 ملین روپے فنڈز ہیں اور باقی قرض ہے، قرض کس فیصد پر ہے، اس کا بھی پتہ نہیں، کے پی کے میں بلوچستان میں لاکھوں لوگوں کو مارا جا رہا ہے، تاکہ پنجاب کے لوگ آرام سے سوئیں، اگر یہی رویہ رکھا گیا تو فیڈریشن نہیں رہے گی، سی پیک میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں، آدھا ملک اس کی پالیسیوں کی وجہ سے چلا گیا ہے۔سینیٹر اعظم سواتی موسٰی خیل نے کہا کہ گوادر کے مالک ہم ہیں، لیکن اس کی خوشیوں سے ہم محروم ہیں۔ چین نے اپنے محروم علاقے میں کام کرنے کے لئے سی پیک کا آغاز کیا، لیکن پاکستان نے اسے تخت لاہور چین سی پیک بنا لیا ہے، جس کا تخت لاہور کو نقصان بھگتنا پڑے گا۔ چھ سالوں میں ایک ہزار آٹھ سو لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گیس اور بجلی سے محروم کر دیا گیا ہے، اگر ہماری معدنیات پر تخت لاہور والے انجوائے کریں گے، اس کا نقصان بہت زیادہ ہوگا۔ وفاقی وزیر شیخ آفتاب نے حکومت کی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سی پیک کے اثرات چھوٹے صوبوں تک نہیں پہنچیں گے، 34 ارب روپے انرجی پر خرچ کئے جا رہے ہیں، چائنہ کی کمپنیاں آکر انرجی کے منصوبوں کو بنا رہی ہیں۔ کول، سولر، ونڈ اور ہائیڈرو منصوبوں پر کام شروع ہے، 1320 میگاواٹ بجلی2017ء میں ہمیں مل جائے گی۔ دوسرا تھر کا منصوبہ ہے، اندورن سندھ 660 میگاواٹ کے دو منصوبے لگا کہ جا رہے ہیں، ساہیوال میں 660 دو منصوبے بھی 2017ء میں مکمل ہوجائیں گے، ہائیڈرل کی تین فیزیلٹی رپورٹ بن چکی ہیں، جن سے 1870 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگئی، کوہالا میں 1100 میگاواٹ کا منصوبہ ہے، بہاولپور میں سولر کا منصوبہ ہے، ونڈ کے دو سو میگاواٹ کے چار منصوبوں پر کام جلد مکمل کر لیا جائے گا، 50- 50 میگاواٹ کے یہ منصوبے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سب سے زیادہ فائدہ خیبر پختونخوا کو ہوگا، برہان سے حویلیاں تک روڈ مکمل ہونے کے بعد کے پی کے اور ہزارہ کے درمیاں فاصلہ کم ہوجائیگا، پورے ملک میں موٹر وے کا جال بچھایا جا رہا ہے، اس منصوبے میں کسی صوبے کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہونے دی جائے گی، کراچی تک ڈبل ٹریک بنانا ہے، جس پر کام جاری ہے، گوادر کے منصوبہ پر کام جاری ہے اور ایل این بی کا ٹرمینل بنایا جا رہا ہے، اس کے علاوہ وہاں پر ہستال بنائے جا رہے ہیں۔ گوادر میں اسپشل اکنامک زون بنایا جا رہا ہے، یہ منصوبے 2030ء تک جائیں گے، لاہور اسلام آباد موٹر وے پر بھی بڑی تنقید ہوئے تھی، لیکن اس کا فائدہ روزانہ لاکھوں لوگوں کو ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے علاوہ چینی حکومت خطے میں پانچ اور کوریڈور بھی بنا رہی ہے۔ ان کوریڈورز میں (1) چین سینٹرل ایشیاء، ایسٹ ایشیاء اکنامک کوریڈور، (2) چین منگولیا اکنامک کوریڈور، (3) چین انڈو چائنا پیننسیولا اکنامک کوریڈور، (4) چین بنگلہ دیش انڈیا میان مار کوریڈور اور (5) نیو ایروایشیاء لینڈ برج کوریڈور شامل ہیں۔ یہ کوریڈورز زیادہ تر انفراسٹکچر سے متعلق ہیں، جبکہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور میں توانائی کے منصوبے اس کوریڈور کو دیگر کوریڈورز سے منفرد بناتے ہیں۔ماہرین کے مطابق گوادر پورٹ بھی قدرت کی طرف سے پاکستان کے لئے ایک تحفہ ہے، جس کا چین کو بخوبی ادراک ہے۔ ماہرین کے مطابق ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی 12 برتھوں کے مقابلے میں گوادر کی گہرے سمندر کی بندرگاہ کی مکمل ہونے پر 120 برتھیں ہوں گی۔ یہ بندرگاہ کیلی فورنیا میں دنیا کی سب سے بڑی پورٹ سے بھی تقریباً 2 گنا بڑی ہوگی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ سے افریقہ، ایشیا اور یورپ کے 90 ممالک سے تجارت ممکن ہوجائے گی۔ جس قافلے کو افتتاحی تقریب کے موقع پر گوادر سے روانہ کیا گیا، وہ تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد کنٹینر پر مشتمل تھا اور اسے مشرقی وسطٰی اور افریقی ممالک کی جانب بھجوایا گیا ہے۔ چین کے کنٹینروں کا یہ قافلہ یکم نومبر کو پاکستان میں داخل ہوا۔ چھ نومبر کو بلوچستان کے ضلع ژوب میں داخل ہوا۔ پھر اقتصادی راہداری کے مجوزہ مغربی روٹ کے مختلف علاقوں کوئٹہ، قلات، سوراب، پنجگور اور کیچ سے ہوتے ہوئے گوادر پہنچا۔ اس قافلے کو بحری جہاز کے ذریعے 13 نومبر کو روانہ کیا گیا اور افتتاحی تقریب میں وزیراعظم اور آرمی چیف کے ساتھ وزیراعلٰی بلوچستان اور وفاقی وزار موجود تھے۔ پاکستان میں اکنامک کوریڈور کے مشرقی اور مغربی روٹس پر بھی خیبر پختونخوا اور وفاق کے درمیان خوب گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔ اس معاملے پر بھی حقائق عام لوگوں تک نہیں پہنچے اور عوام اب بھی مشرقی اور مغربی روٹ کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور کے معاہدے سے پہلے 2013ء میں دونوں ممالک نے جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹیاں بنائیں، جنہوں نے اس منصوبے کو عملی شکل دی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے جوائنٹ کوآرڈیینیشن کمیٹی میں چین کے برعکس تمام صوبوں کی نمائندگی نہیں تھی اور اس فورم پر صرف مشرقی روٹ کی ہی تجویز دی گئی، جو منظور کرلی گئی۔ اب بھی سرکاری دستاویزات میں صرف ایک روٹ (مشرقی) کا ذکر موجود ہے، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بعد میں مغربی علاقوں کو بھی اس روٹ سے منسلک کیا جائے گا۔ وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے دوسری آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میں بھی مشرقی روٹ کی تعمیر اور بعد میں اسے مغربی علاقوں سے منسلک کرنے کی شق شامل تھی۔ بہرحال یہ روٹ جس علاقے سے بھی گزرے، فائدہ پاکستان کا ہی ہے اور جلد یا بدیر دیگر علاقے بھی اقتصادی راہداری سے ضرور مستفید ہوں گے۔ وفاقی حکومت کو کھلے الفاظ میں سب کچھ خیبر پختونخوا اور سندھ کے وزرائے اعلٰی کو بتانا چاہیے اور ان کے تحفظات کا ہر ممکن حد تک ازالہ کرنا چاہیے۔ وفاقی حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور سے متعلق تمام حقائق سیاسی مصلحتوں کو نظرانداز کرکے عوام کے سامنے لائے۔ پلاننگ ایںڈ ڈویلپمنٹ کی وزارت کی ویب سائیٹ پر محترم احسن اقبال کے وعدے کے مطابق منصوبے کی تمام معلومات جزیئات کے ساتھ موجود ہونی چاہیئں، ہر پاکستانی تمام حقائق سے مکمل طور پر آگاہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ حکومت کی جانب سے عام آدمی کو اعتماد میں لیا جائے گا تو وہ بھی اپنے بہتر مستقبل کے لئے انفرادی سطح پر اس منصوبے کا محافظ بن جائے گا، ورنہ غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہیں گی، جس کا نتیجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت میں نکلے گا۔

Viewing all articles
Browse latest Browse all 31704

Latest Images

Trending Articles

<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>