اسلام ٹائمز۔ جشن آزادی پاکستان کے سلسلے میں نماز جمعہ کے موقعہ پر امکانی احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر شہر سرینگر کے 7 پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں غیر اعلانیہ کرفیو، بندشیں ورکاوٹیں ہونے کی وجہ سے شہرخا ص کی ایک وسیع آبادی گھروں میں محصوررہی جبکہ سخت ترین ناکہ بندی کی وجہ سے تاریخی جامع مسجد اور دیگر چھوٹی بڑی مساجد میں نماز جمعہ ادا نہیں کی جاسکی۔ پائین شہر میں ناکہ بندیاں عائد کرنے سے سیول لائنز کے لالچوک، بڈشاہ چوک، ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ، ریگل چوک اور دوسرے بازاروں میں ویرانی چھائی رہی۔ اس دوران سرینگر، بانڈی پورہ، سوپور، پلوامہ کلگام اور ترال کے علاوہ کئی مقامات پر سبز ہلالی پرچم لہراے گئے جبکہ ممکنہ احتجاج کے پیش نظر علیحیدگی پسند لیڈاران کو خانہ نظربند یا حراست میں رکھا گیا۔ 15 اگست کی تقاریب کے سلسلے میں چیکنگ اور سخت سیکورٹی انتظامات کے بیچ پولیس اور ضلع انتظامیہ نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد شہر میں بڑے پیمانے پر سنگ بازی اور پرتشدد مظاہرے ہونے کا احتمال ہے چنانچہ امن و قانون کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے پائین شہر کی سخت ترین ناکہ بندی کی گئی تھی اور غیراعلانیہ کرفیو کا نفاذ عمل میں لاکر لوگوں کو گھروں میں محصور کیا گیا۔حریت رہنما آسیہ اندرابی نے بھی پاکستانی جھنڈا لہرایا اور انہوں نے دیگر خواتین کے ہمراہ پاکستان کے نغمے بھی گائے۔ اس دوران 15 اگست کے موقعہ پر ممکنہ احتجاج کے پیش نظر پولیس نے سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق، شبیر احمد شاہ اور نعیم احمد خان کو خانہ نظربند کیا ہے۔ اس کے علاوہ پولیس نے جمعرات کی شام کئی علیحدگی پسندوں کے گھروں پر چھاپے ڈالے جس دوران حریت کانفرنس (گ) کے محمد اشرف صحرائی، محمد الطاف شاہ، ایاز اکبر اور معراج احمد کو گھروں میں نظر بند کیا گیا۔ پولیس نے حریت کانفرنس (م) مزاحمت کاروں، محمد یاسین ملک، انجینئر ہلال احمد وار، ظفر اکبر بٹ، شاہد اسلام اور سید سلیم گیلانی کو بھی ان کے گھروں میں نظر بند کر رکھا ہے۔