اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی کی طرف سے زینہ کوٹ میں جانبحق کئے گئے نوجوان کی یاد میں آج مجوزہ تعزیتی جلسہ کو ناکام بنانے کے لئے مفتی سعید انتظامیہ کی طرف سے کرفیو نافذ کرنے لوگوں کو اپنے گھروں میں محصور، ٹائیر گیس شلنگ، درجنوں رہائشی مکانات کی توڑ پھوڑ، لاٹھی چارج کرکے درجنوں نوجوانوں کو زخمی کرنے، سیاسی راہنماؤں و درجنوں نوجوانوں کو گرفتار کرنے اور نوجوانوں کے گھروں پر شابانہ چھاپوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فورسز نہتے کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں اور مفتی سعید حکومت قاتلوں کو شلیڈ کرکے لوگوں کو لاشوں پر ماتم کرنے اور رونے پر بھی پابندی عائد کرتی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ پولیس اور انتظامیہ کے اس ظلم وجبر کے باوصف کچھ قائدین اس مجوزہ تعزیتی جلسہ میں شریک ہونے میں کامیاب ہوئے۔سید علی گیلانی نے ٹیلی فون کے ذریعے اس تعزیتی جلسہ سے اپنے خطاب میں شہید گوہر نذیر ڈار کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مفتی محمد سعید عوام اور آزادی پسند قیادت کو زیر کرنے کے لئے جس طرح کے حربے استعمال کررہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ پی ڈی پی ہوسِ اقتدار اور طاقت کے نشے میں بربریت کا مظاہرہ کررہی ہے اور انتقام گیری کے جذبے کے تحت عوام اور آزادی پسند قیادت کے خلاف بر سر جنگ ہے۔ سید علی گیلانی نے زینہ کوٹ سانحہ میں نوجوان کی ہلاکت کے لئے موجودہ حکومت کو براہ راست ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ مفتی محمد سعید کمانڈ کونسل کے سربراہ ہونے کے ناطے اس خون ناحق میں برابر کے شریک ہیں اور سیاسی پینترہ بازی کا سہارا لے کر بری الزمہ قرار نہیں دئے جاسکتے۔حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین نے شہرِ سرینگر اور بالخصوص زینہ کوٹ ایچ ایم ٹی میں کرفیو کے نفاذ اور فوجیوں کی جانب بندشوں اور پابندیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حاشیہ بردار اس خونِ ناحق پر پردہ ڈالنے اور حقائق کی پردہ پوشی کے لئے گولیوں، گرفتاریوں اور کرفیو کا سہارا لے رہی ہے۔ انہوں نے انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے تحقیقات کرنے کو وقت گزاری اور ڈرامہ بازی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج تک سینکڑوں ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کے بارے میں تحقیقات کرنے کی بات کہی گئی ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی بھی ملوث اہلکار کو سزا نہیں دی گئی، یہ صرف وقت گزاری ہے اور پولیس آخر میں اس قتل کے لیے ان ہی افراد کو ذمہ دار قرار دیتی ہے جو اس قتلِ ناحق کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں، جیسا کہ شوپیاں کی آسیہ اور نیلوفیر کے کیس میں ہوا ہے کہ جن افراد نے اُس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تھی پولیس نے اُن کو ہی اس کیس میں ملوث دکھایا۔