Quantcast
Channel: اسلام ٹائمز - مقبول ترین عناوین :: مکمل نسخہ
Viewing all articles
Browse latest Browse all 31714

پاراچنار دھماکہ کے پس پردہ عوامل

$
0
0
تحریر: قاری عبدالحسینکرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار میں 13 دسمبر 2015ء کو ہونے والا دھماکہ کوئی پہلا سانحہ نہیں تھا، بلکہ اس سے قبل اسی مقام سے تقریباً تیس گز کے فاصلے پر پشاور فلائنگ کوچ اڈہ کے قریب پہلا دھماکہ ہوا تھا، جس میں 12 افراد شہید ہوئے تھے، اسکے کچھ ہی عرصہ بعد اس مقام سے تقریباً پندرہ گز کے فاصلے پر شہید ڈاکٹر ریاض حسین کے الیکشن آفس کے سامنے دوسرا دھماکہ ہوا، جسمیں تقریباً پچاس افراد شہید ہوئے تھے۔ اسکے کچھ عرصہ بعد کرمی بازار میں ایک اور دھماکہ ہوا، جس میں ایک درجن کے قریب افراد شہید ہوگئے تھے، لیکن اس پر ایک آفت حکومت کی جانب سے آن پڑی، جس نے مظاہرین کو احتجاجی مظاہرہ سے روکنے کے بہانے ایک درجن سے کچھ زیادہ افراد کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ اسکے کچھ عرصہ بعد کشمیر چوک میں ایک سرکاری گاڑی میں دھماکہ ہوا۔ خوش قسمتی سمجھیں یا کوئی منصوبہ کہ اس موقع پر گاڑی سرکای اہلکاروں سے خالی تھی، اس دھماکے میں بھی خواتین اور بچوں سمیت 16 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ اسکے بعد 2013ء کے رمضان المبارک کو پنجابی بازار اور شنگک روڈ کے سنگھم نیز زیڑان روڈ میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے، جن میں بچوں سمیت چالیس کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ اور گذشتہ روز کا یہ حالیہ دھماکہ فلائنگ کوچ اڈہ کے قریب عیدگاہ علاقے میں ہوا، جس کی ذمہ داری احرار المجاھدین نامی تنظیم نے قبول کرلی ہے۔دھماکے کی نوعیت:دھماکے کی نوعیت کے حوالے سے پہلے دن سے مختلف نکات نظر پیش کئے جاتے رہے تھے، لیکن راقم الحروف نے بذات خود حالات کا جائزہ لیا اور مختلف افراد کی رائے لی تو ضمناً میرے خیال کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ دھماکے سے چند روز قبل چند اجنبی افراد یہاں آکر مختلف قسم کے سٹال لگایا کرتے تھے۔ جن میں عینک، پرانے جوتے اور موبائل سمز وغیرہ شامل ہیں۔ چشم دید گواہوں کا ایک ہی بیان ہے کہ یہ مذکورہ افراد اپنا مال و اسباب نہایت کم اور رعایتی نرخوں پر فروخت کیا کرتے تھے اور عموماً ظہر کو واپس چلے جاتے تھے۔ ان میں سے جوتوں کا جو اسٹال تھا وہ اپنا باقی ماندہ سامان کم ریٹ پر کسی کرمیوال کباڑی کو دیکر فروخت یا امانتاً رکھدیا کرتا تھا۔ چند دنوں سے یہی صورتحال برقرار تھی۔ عینی شاہدین کا خیال ہے کہ دھماکہ خودکش نہیں تھا بلکہ بارودی مواد کو کباڑ کے سامان میں نصب کیا گیا تھا، جو کہ مقامی انتظامیہ کے مطابق 30 کلو کے لگ بھگ تھا۔دھماکہ خیز مواد کباڑی کو فروخت کیا گیاخیال کیا جاتا ہے کہ شاید حملہ آور نے کڑمان بوغکی کے باشندے اور دھماکے میں شہید ہونے والے باپ علی گوہر اور دو بیٹوں کے ہاتھ یہ سامان فروخت کیا یا چند لمحوں کے لئے اسکے پاس امانتاً رکھا ہوگا اور خود کچھ دور جاکر ریموٹ کنٹرول سے دھماکہ کر دیا اور یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے، کیونکہ کسی اجنبی کی لاش کے ابھی تک کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔احرار المجاہدین کا اقبال جرم اور پیغام:بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گذشتہ دنوں وائس آف جرمنی کے مشال ریڈیو نے اپنے ایک پروگرام میں شام میں شہید ہونے والے پاکستانیوں خصوصاً اہلیان کرم کے حوالے سے ایک پروپیگنڈہ کیا تھا اور انہوں نے اپنے تبصرے میں زینبیون کے نام سے چلنے والی ایک ویب سائٹ کا بھی حوالہ دیا تھا۔ نیز دھماکے کی ذمہ داری احرار المجاہدین نامی ایک تنظیم نے قبول کرتے ہوئے فیس بک پر یہ دھمکی اور ہیغام دیا ہے کہ اس دھماکے کو شام کی لڑائی میں اہلیان کرم کی شمولیت کا ردعمل اور سزا سمجھا جائے۔ چنانچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حملہ آور یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر شام جانے سے یہ لوگ منع نہیں ہو رہے تو انہیں یہیں اپنے ہی علاقے میں مصروف رکھا جائے گا۔ خیال رہے کہ کرم میں حکومت بہت سخت ہے، انہیں سب کچھ معلوم ہے کہ یہاں بھرتی کا باقاعدہ کوئی سسٹم موجود نہیں۔ شام جانے کا پروگرام ہر مجاہد کا ایک ذاتی مذھبی جذبہ اور معاملہ ہے، وہ کسی حکومت یا ملک نیز کسی تنظیم کی پیروی میں یہ کام نہیں کر رہے بلکہ مزارات اہلبیت علیھم السلام کی حفاظت کو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر خود اپنی مدد آپ کے تحت جا رہے ہیں۔ اہلیان کرم میں سے مذھبی جوانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ خدا نخواستہ مکہ یا مدینہ پر کسی ملک یا گروہ نے حملہ کیا تو بھی اللہ ج، رسولؐ اور اہلبیتؑ سے منسوب مقدس مقامات کا دفاع کرنا اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں۔کرم ایجنسی کے امن و امان کو سبوتاژ کرنابعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ گذشتہ ایک دو ماہ سے کرم کے امن کو سبوتاژ کرنے کے ابھی تک کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ عید قربان سے چند دن قبل صدہ بازار میں داعش کی حمایت میں ایک جھنڈہ بردار جلوس نکالا گیا۔ اسکے کچھ ہی دن بعد ایک چلتی گاڑی سے صدہ بازار کے علاوہ ٹل پاراچنار روڈ پر مختلف علاقوں میں داعش کے نام سے پمفلیٹ تقسیم کئے گئے۔ جس میں حکومت اور اہل تشیع کو دھمکی دی گئی تھی، اس میں اہل تشیع کی مساجد اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ (سنا ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں صدہ بازار میں کئی دکانداروں کو حراست میں لیکر ملزمان کی نشاندھی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔) بہرحال اسکے کچھ ہی دن بعد پاڑہ چمکنی کے علاقے، جو کہ اصل میں بالشخیل کے شیعہ قبائل کی ملکیت زمین ہے، تاہم اس وقت اس پر چمکنی قبائل نے آبادکاری کرکے ناجائز قبضہ جمایا ہے، سے صدہ میں عارضی کیمپ میں مقیم شیعوں پر صبح آٹھ بجے ایک میزائل فائر کیا گیا، جو کہ ساتین کے علاقے میں گرا، لیکن خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسکے بعد پیواڑ میں ایک افغان گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ جس میں ایک افغان ڈرائیور جاں بحق ہوگیا۔ جس پر حکومت نے کارروائی کرتے ہوئے پیواڑ سے اب تک 90 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ اسکے دوسرے دن ایک اخباری اطلاع کے مطابق بگن کے مقام پر ایک اور افغان گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ جس میں ڈرائیور اور اسکا کنڈیکٹر جاں بحق ہوگئے۔اسکے دو دن بعد تقریباً سترہ صفر المظفر کو شلوزان تنگی (میں مینگل علاقے) سے علی شاری پر یکے بعد دیگرے دو میزائل فائر کئے گئے۔ جن میں سے ایک مس جبکہ دوسرا زور دار دھماکے سے پھٹ گیا، تاہم اس میں بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسکے تین دن بعد روز اربعین (20 صفر المظفر) کو بوشہرہ میں ایک امام بارگاہ میں شیعہ مولانا کی جانب سے مجلس میں یزید اور ابن زیاد کی مذمت پر بوشہرہ کے تکفیریوں نے اس حساس دن کو سرکاری روڈ بلاک کرکے یزید سے اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کیا۔ حکومت نے انکی سرزنش کے بجائے انہی کی حمایت میں علاقے کے کچھ شیعہ عمائدین کو حراست میں لیا، جبکہ بعض دوسروں کو سرکاری چیک پوسٹ پر بلاکر ان سے یہ ضمانت لی گئی کہ آئندہ لاوڈ سپیکر پر ایسے مطالب بیان کرنے سے گریز کیا جائے، جبکہ گذشتہ روز اتوار کو ہونے والا یہ حالیہ دھماکہ انہی مذکورہ بالا کارروائیوں کا تسلسل معلوم ہو رہا ہے، جس میں داعش کے نئے نام سے سرگرم وہی پرانے دہشتگرد طالبان یا لشکر جھنگوی شاید یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ابھی ہم منظر سے ہٹے نہیں بلکہ میدان میں موجود ہیں اور یہ کہ شاید وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ کرم پاراچنار کو محفوظ علاقہ خیال نہ کیا جائے، خصوصاً افغان ٹریڈ روٹ کے طور پر اس علاقے کو استعمال کرکے اہل تشیع کو فائدہ پہنچنے نہیں دیا جائے گا۔ خیال رہے کہ یہ موخر الذکر تنبیہہ انہوں نے دو ماہ قبل ایک پمفلٹ کے ذریعے یوں دہرائی تھی کہ تمام مسلمان ڈرائیور حضرات کو مطلع کیا جاتا ہے کہ پاراچنار کے راستے سے افغانستان سامان لے جانے سے گریز کریں، ورنہ نتائج کے وہ خود ہی ذمہ دار ہونگے۔ مذکورہ پمفلٹ بندہ نے فیس بک پر بھی دیکھا تھا۔

Viewing all articles
Browse latest Browse all 31714

Latest Images

Trending Articles



Latest Images

<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>