Quantcast
Channel: اسلام ٹائمز - مقبول ترین عناوین :: مکمل نسخہ
Viewing all articles
Browse latest Browse all 31724

ایسا کب تک چلے گا؟

$
0
0
تحریر: سید اسد عباسمیں پاکستان میں موجود مسائل پر عموماً بہت کم لکھتا ہوں، جس کی ایک اہم وجہ وطن عزیز کے نظم خواہ سیاسی ہو یا معاشی، اداری ہو یا معاشرتی کا اپنی درست روش پر گامزن نہ ہونا ہے۔ درست روش سے میری مراد وہ راستہ ہے، جس پر وہ قومیں سفر کرتی ہیں، جو اقوام عالم میں ایک باوقار مقام حاصل کرنے کی خواہاں ہوتی ہیں۔ ہم من حیث القوم ڈنگ ٹپاؤ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ دنیا میں ہمیں دوسری مثال نہیں ملتی، جہاں ستر سال پہلے آزاد ہونے والا ملک اسی مقام پر کھڑا ہو، جہاں سے اس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اگر کوئی کہے کہ نہیں ہم پہلے سے بہت ترقی کر گئے ہیں تو میں کہوں گا کہ نہیں جناب، ہم اب بھی وہیں ہیں بلکہ اس سے بھی پیچھے جا چکے ہیں۔ اس وقت بھی ہم اپنی سہولیات زندگی باہر سے خریدتے تھے اور آج بھی باہر ہی سے لاتے ہیں۔ اس وقت گرامو فون تھا تو آج موبائل ہے، اس وقت ریڈیو تھا تو آج ایل سی ڈی، سی ڈی ہے، اس وقت سائیکل اور پتلے پہیوں والی کاریں تھیں تو آج موٹر سائیکل اور کاریں، سیگرٹ کے لائٹر سے لے کر جہاز تک کوئی چیز ہماری اپنی نہیں ہے۔ ہم تو وہی ہیں خریدار، دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہم دنیا کی بنائی ہوئی اشیاء خرید کر سمجھتے ہیں کہ ہم بھی ترقی کر رہے ہیں۔ہماری درآمدات، ہماری برآمدات کے مقابلے میں کئی گنا ہیں، جس سے ہر سال ہمارا بجٹ خسارے سے دوچار ہوتا ہے اور پھر اس خسارے کو دور کرنے کے لئے ہمیں بیرونی قرضے لینے پڑتے ہیں۔ آج یہ عالم ہے کہ ہماری قوم کا ہر بچہ لاکھوں روپے کا مقروض ہے۔ ایسی مقروض قوم بھلا اپنے ملک کے فیصلے کیسے آزادی سے کرسکتی ہے، جب ڈونر آئی ایم ایف ہو تو پھر تو قطعا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی بجلی کی قیمت بڑھتی ہے تو کبھی پیڑول، کبھی اشیائے صرف پر ٹیکس لگتا ہے تو کبھی کسی چیز پر۔ کبھی کوئی قانون سامنے آتا ہے اور کبھی کوئی اور ہم لوگ بڑی حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکتے ہیں کہ یہ قانون کدھر سے آگیا؟ حضرت یہ ادھر سے ہی آیا ہے، جو آپ کو ملک چلانے کے لئے پیسے دیتے ہیں۔ وہ غالب کا شعر تو سنا ہی ہوگا آپ نے:قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاںرنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دنہمیں مے کا نہیں بلکہ قرض کا جو نشہ چڑھا ہے، اس نے ہماری رہتی سہتی عقل کو بھی زائل کر دیا ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، افغانستان کے علاوہ کون سا ایسا ملک ہے جو ہم سے پیچھے ہو۔ ہمارا ہمسایہ ہندوستان اگرچہ ہمارا ازلی دشمن ہے، لیکن ہر شعبہ زندگی میں ترقی کی منازل طے کر رہا ہے، ایران کو دیکھیں ہزار ہا پابندیوں کے باوجود علمی ترقی میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق صرف سال 2011ء ایران کے سائنسدانوں نے ساٹھ ہزار سے زیادہ تحقیقی مقالات لکھے، جو عالمی جرائد میں شائع ہوئے۔ ان پابندی کے سالوں میں ایران نے ہر چیز اپنے ملک میں بنانا شروع کی۔ شمال میں چین کو دیکھیں ہمارے بعد چین میں انقلاب آیا، آج چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ اس کی برآمدات کا بڑا حصہ اس کے عوام کی فنی صلاحیات اور محنت سے بنائی گئی اشیاء پر مشتمل ہے۔ کمپیوٹر، موبائل، انٹیگریٹڈ سرکٹ چائنہ کی زمین سے نہیں نکلتے، وہاں کے سائنسدانوں نے یہ تمام تر اشیاء اپنی ذہنی صلاحیات سے پیدا کیں اور اس درجے پر پیدا کیں کہ دنیا کے بڑے بڑے ترم خانوں کو گھٹنوں پر لے آئے۔ آج دنیا کی ہر بڑی کمپنی مجبور ہے کہ وہ اپنا کاروبار چین سے چلائے۔ہم نے ایٹم بمب، میزائل اور چند بندوقیں بنا کر یہ سمجھ لیا کہ ہم دنیا میں کوئی بڑی چیز بن گئے ہیں۔ یہ اشیاء بھی ایک ادارے کی محنت کا ثمرہ ہیں، ورنہ حالت تو ہماری یہ ہے کہ ہماری برآمدات بھی روز بروز کم ہوتی جارہی ہیں۔ سیاسی، تعلیمی، معاشی، معاشرتی تنزلی کا یہ عالم ہے کہ کوئی عالم نہیں۔ جہاں نظر دوڑاؤ سائیں سائیں کی آوازیں کانوں سے ٹکراتی ہیں۔ رہتی سہتی کسر ہمارے حکمرانوں نے نکال دی۔ اس ابتری، بدحالی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ قائداعظم اور ان کے رفقاء کی محنتوں کے ثمرے کو ہم نے کیسے دونوں ہاتھوں سے برباد کیا ہے۔ اقبال کے خواب کو کیسے نوچا ہے اور اپنی ان چیرہ دستیوں پر کس قدر مطمئن ہیں۔ ہزاروں انسانوں کی عزت، جان اور مال کی قربانیوں سے حاصل کردہ اس نعمت کی ہم نے کس شقاوت کے ساتھ ناشکری کی ہے۔ بڑے سکون سے کہتے ہیں کہ یہاں انصاف ممکن نہیں ہے۔ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ بڑی سے بڑی قیامت آجائے ہمیں معلوم ہے کہ چند روز ’’ہا ہو‘‘ ہوگی اور اس کے بعد ہر چیز اپنی پرانی روش پر گامزن ہوجائے گی۔ایسا کب تک چلے گا؟ایک حصہ ہم پہلے ہی اپنے سے جدا کروا چکے، یہ بھی جانتے ہیں کہ دشمن دیگر حصوں پر نظر جمائے ہوئے ہے، تاہم ہم نے نیت کر رکھی ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے دشمن کو کسی زحمت سے کیونکر گزرنا پڑے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ ہم کسی بھی چیز کو درست کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ معدودے چند ایسے لوگ ہیں جو اصلاح کا جذبہ رکھتے ہیں، تاہم ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ یہاں عموماً اصلاح کی بات بھی مفاد کے تحت کی جاتی ہے۔ مقصد کچھ ہوتا ہے اور نعرہ کچھ۔ نعرہ عدلیہ کی آزادی اور مقصد ایک فرد کا تعین۔ کہاں گئی وہ آزاد عدلیہ، نعرہ صحافت کی آزادی اور مقصد ایک گروہ کی اجارہ داری، نعرہ ملک کی ترقی اور مقصد پانامہ لیکس کے اکاونٹ، میاں صاحب کا معاملہ تو چلو آج کا ہے، وہ جو اس سے قبل لوٹ کر چلے گئے، ان سے کیا کوئی سوال ہوا۔؟ خدارا اس ملک اور اس کے غریب عوام پر رحم کریں۔ یہ زندگی اس کی آسائشیں، آرام و سکون، آپ کی آخری سانس کے ساتھ ہی دم توڑ جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی چیز آپ کے ساتھ اگلے جہان میں نہیں جا پاتی۔ اتنا جمع کریں جتنا خود کھا سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے تو سادگی، زہد اور قناعت کی عظیم مثالیں موجود ہیں۔ ہم ان کے نام لیوا بھی ہیں، ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور ان کی روش کے خلاف عمل بھی کرتے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟

Viewing all articles
Browse latest Browse all 31724

Latest Images

Trending Articles



Latest Images

<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>