تحریر: عمران خانکراچی سے 150، خضدار سے 300 اور کوئٹہ سے سات سو سے زائد کلومیٹر دور حضرت سخی شاہ بلاول نورانی کے دربار میں ہونے والے خودکش حملے میں تادم تحریر 65 سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیں، جبکہ ایک سو سے زائد افراد زخمی ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ امدادی کارروائیوں میں غیر معمولی تاخیر بنی۔ عملی طور پر خودکش دھماکے کے چار گھنٹے بعد امدادی کارروائیوں کا آغاز ہوسکا۔ پہلے پہل حب میں موجود سول ہسپتال میں زخمیوں کو منتقل کرنے کی کوشش بھی زیادہ سود مند اس لئے ثابت نہ ہوسکی، کیونکہ ہسپتال میں سرے سے عملہ موجود ہی نہیں تھا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ خودکش تھا اور اس وقت ہوا جب دربار میں دھمال جاری تھی۔ ہفتے کا دن ہونے کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں زائرین دربار میں موجود تھے۔ جاں بحق اور زخمیوں میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، مگر ان کی تعداد یا شناخت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ محکمہ داخلہ بلوچستان اور ایف سی نے جاں بحق اور زخمیوں کی معلومات کیلئے کنٹرول روم، ہیلپ لائن قائم کر دی ہیں۔ حکومت، سیاسی و مذہبی جاعتوں کی جانب سے اس حملے کی شدید مذمت جاری ہے۔پاک فوج کے ترجمان کے مطابق لینڈنگ سہولیات نہ ہونے کے سبب ہیلی کاپٹر کے ذریعے زخمیوں کی منتقلی ممکن نہیں جبکہ وزیر داخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے مطابق رات کے وقت اندھیرا ہونے کے باعث ہیلی کاپٹر استعمال نہیں ہوسکتا۔ صوبائی وزیر داخلہ کا یہ بیان غیر متوقع اس لئے بھی نہیں کیونکہ محض اڑھائی ہفتے پہلے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سنٹر پر دہشتگردوں کے حملے کے شہیدوں کی میتیں پبلک ٹرانسپورٹ کی چھتوں پر رکھ کر ان کے گھروں تک منتقل کی گئیں تھیں۔ لہذا جہاں شہید سرکاری اہلکاروں کی میتیں منتقل کرنے کیلئے دن کے اجالے میں ہیلی کاپٹر دستیاب نہ ہوسکے، وہاں نورانی نور، ہر بلا دور کے نعرے لگانے والے مجاوروں کے نصیب میں رات کے اندھیرے میں ہیلی کاپٹر کہاں۔ گرچہ ’’جبل میں شاہ‘‘ کے دربار پر پہنچنے کے دیگر راستے بھی ہیں، مگر کراچی کی لیمارکیٹ سے چلنے والی پرانی کھٹارا گاڑیاں سب سے زیادہ زائرین کے زیراستعمال رہتی ہیں۔ بین الصوبائی روٹ میں سب سے زیادہ پرانی گاڑیاں اور خراب راستے انہی مسافروں کے نصیب میں ہیں، مگر اس کے باوجود ان کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہوتی۔شعبان اور ماہ رمضان کے مہینے میں اس روٹ کے مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ شعبان میں سخی لعل شہباز قلندر کے عرس کی تقریبات ختم ہوتے ہی عقیدت مند عبداللہ شاہ غازی کے مزار کا رخ کرتے ہیں، وہاں تین روزہ تقریبات کے بعد دربار شاہ نورانی کی جانب کوچ کرتے ہیں۔ ان میں کئی عقیدت مند پیدل سفر جبکہ گاڑیوں کے طویل کاروان بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ عقیدت مندوں کے اس ہجوم میں مختلف مذاہب و مکاتب، اقوام کے لوگ شامل ہوتے ہیں، جو رنگ، نسل، مذہب، زبان، قوم، علاقہ کی تفریق کے باوجود انسانی بنیادوں پہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء، صوفیاء کے دربار و مزار بین المذاہب، بین المسالک ہم آہنگی اور احترام آدمیت کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں کے بےضرر عقیدت مندوں سے، ان درباروں سے، مزاروں سے، اللہ رب العزت کی ان برگزیدہ ہستیوں سے کہ جن کے انتقال کے بعد سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں لوگ انہیں سلام کرتے ہیں، خبر نہیں کس کو اتنی تکلیف ہے کہ وہ انہیں زہریلے بارودی مواد سے انتہائی بیدردی کے ساتھ نشانہ بنا رہا ہے۔ کجا تو یہاں کے زائرین کا یہ بھروسہ کہ ان پہاڑوں میں موجود سانپ، بچھو اور دیگر زہریلے کیڑے مکوڑے سخی بلاول شاہ نورانی کے سلام کیلئے آئے لوگوں کو نہیں کاٹتے اور کجا اسی دربار کے اندر سینکڑوں افراد کو لحظہ بھر میں نشانہ بنا دیا جائے۔المیہ تو یہ بھی ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں نشانہ بننے والا یہ کوئی پہلا مزار نہیں، نہ ہی نشانہ بننے والے یہ پہلے عقیدت مند ہیں، بلکہ شائد ہی کوئی معروف دربار ایسا ہو، جو ان حملوں سے محفوظ رہا ہو۔ حب میں شاہ نورانی کا دربار ہو یا لاہور میں حضرت داتا گنج بخش، وفاقی دارالحکومت میں بری امام یا شہر قائد میں حضرت عبداللہ شاہ غازی، رحمن بابا کا مزار ہو یا پسماندہ علاقوں میں موجود درجنوں درگاہیں، کثیر تعداد میں دہشت گردانہ حملے سہہ چکے ہیں، ان درباروں، مزاروں پر دھماکوں اور خودکش حملوں میں زندگیاں ہارنے والوں کی تعداد یقیناً سینکڑوں میں ہے، مگر اس کے باوجود ملک و قوم کے ’’وسیع تر مفاد‘‘ اور ’’مصلحت‘‘ کے تحت حملہ آوروں کی شناخت حکومت، اداروں یا میڈیا کی جانب سے منظر عام پر نہیں لائی جاتی۔ اس فکر و سوچ کی مذمت تو درکنار اس کا تذکرہ ہی ممنوع سمجھا جاتا ہے، جو عقیدت کے ان مراکز پر حملوں کی حمایت اور ترغیب دیتی ہے۔ کیا روزانہ کی بنیاد پر جاری تجزیوں، مکالموں، مباحثوں پر مبنی سینکڑوں پروگراموں کے دانشور، مفکرین نہیں جانتے کہ کونسی فکر ان مراکز کو نشانہ بنانے کا درس دیتی ہے۔؟کون سے عناصر بدعت، بدعت اور کفر کفر کی گردان کرتے ہیں۔ کون سی سوچ ہے جو قبروں کو منہدم اور یہاں سلام کرنے والوں کی گردن کاٹنے کا درس دیتی ہے، یا وہ کونسا عنصر ہے جو تمام درباروں کے حملہ آوروں میں مشترک ہے۔ کونسے مدارس ہیں جو تکفیر پر مبنی لٹریچر برآمد کر رہے ہیں۔ کون سی تنظیمیں ہیں جو مجالس، میلاد، جلوس، نیاز، دھمال، کو کارخیر سمجھ کر نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ یقیناً صاحب علم و دانش بخوبی آگاہ ہیں کہ ایک ہی سوچ و فکر ایسی ہے جو نہ احترام آدمیت کی قائل ہے، نہ مزارات اور درباروں کی حرمت کی اور نہ ان کے ماننے والوں کو برداشت کرتی ہے۔ یہ وہی سوچ و فکر ہے کہ جو داتا دربار کو بھی نشانہ بناتی ہے اور دربار شاہ نورانی کو بھی، یہی فکر مکہ و مدینہ میں جنت البقیع بھی مسمار کرتی ہے، پاک پیغمبر حضرت محمد (ص) کی والدہ، چچاوں، امہات المومنین یعنی خاندان رسالت کی قبور و نشانیوں کو ختم کرتی ہے اور ان کے ماننے والوں کو بھی ظلم کا نشانہ بناتی ہے۔یہی فکر شام، عراق، افغانستان میں اولاد رسول، اصحاب رسول اور اولیاء اللہ کے مزارات کی بیحرمتی کرتی ہے۔ یہ وہی سوچ و فکر ہے جو میلاد کی محافل پر حملے کراتی ہے، جلوسوں، مجالس، مساجد، امام بارگاہوں، خانقاہوں، درباروں کو بھی نشانہ بناتی ہے، تاہم تمام تر ناقابل معافی و تلافی جرائم کے مرتکب اسی فکر کے حامل گروہ ایک طرف دفاع وطن کی چھتری میں عوام کو مذہب، مسلک کے نام پر قتل کرتے ہیں تو دوسری جانب اپنی سوچ کو دوسروں پر زبردستی مسلط کرتے ہیں اور ریاستی ادارے ان گروہوں کو تحفظ دیتے ہیں۔ وزیر داخلہ ان کے سرپرستوں کو خوش آمدید کرتا ہے۔ پابندی کے باوجود انہیں اجتماعات کی کھلی چھٹی دیتا ہے، ان اجتماعات میں تکفیری نعرے لگتے ہیں، مگر انتظامیہ کوئی نوٹس نہیں لیتی، جو اس بات کا اظہار ہے کہ انتظامیہ اس تقسیم کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ دربار و مزار بین المذاہب ہم آہنگی اور اتحاد بین المسلمین کا بہترین پلیٹ فارم بھی ہیں۔ چنانچہ جو عناصر قوم میں تفرقہ ڈال کر اسے تقسیم رکھنے کے ایجنڈے پر کاربند ہوں، وہ ان پلیٹ فارم کو نقصان ہی پہنچائیں گے۔اتحاد بین المسلمین سے سب سے زیادہ وہی خوفزدہ ہیں، جو تفرقے کی بنیاد پر اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی دنیا میں شیعہ، سنی، بریلوی، وہابی تقسیم کو گہرا رکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی انسانیت کی بنیاد پر ہونے والی بات یا مطالبے کو بھی تفرقہ کا جامہ پہنا کر رد کر دیا جائے۔ دور جانے کی ضرورت قطعاً نہیں، ایک مخصوص فکر سے تعلق رکھنے والا گروہ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں تحفظ آل سعود کے نام پر سیمینار کر رہا ہے، (تحفظ حرمین نہیں، تحفظ سعودی عوام نہیں بلکہ تحفظ آل سعود)۔ آل سعود جن کا ایک قبیح کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے خاندان رسالت کے مزارات کو شہید کیا۔ پوری اسلامی دنیا میں اس تکفیری فکر کو برآمد کیا، جو عصر حاضر میں اسلامی دنیا کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے تمام واقعات میں مشترک ہے اور یہ وہی فکر ہے، جس نے سخی بلاول شاہ نورانی کے دربار میں سینکڑوں انسانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تکفیر پر مبنی اس سوچ کا اسلامی دنیا بالخصوص پاکستانی معاشرے سے خاتمہ کیا جائے تو پھر کوئی دربار خودکش حملوں یا دھماکوں کا نشانہ نہیں بنے گا، ان شاء اللہ۔