اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی گیلانی نے ’’داعش‘‘ کی طرف سے کشمیر سے متعلق دئے گیے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس خطے تک داعش کے پہنچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، البتہ اس طرح کے بیانات سے بھارت کو ضرور ایک بڑا ہتھیار فراہم ہوسکتا ہے اور وہ اس کو استعمال کرکے کشمیریوں کی مبنی بر صداقت جدوجہد کو پوری دنیا میں بدنام کرنے کی ہر ممکن کوششیں بروئے کار لائے گا۔ انہوں نے ’’داعش‘‘ کے دعاوی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس کی کوئی اعتباریت اور صحیح سمت میں کوئی پلاننگ ہوتی تو مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہوتے ہوئے اس کی پہلی ترجیح قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی آزادی ہوتی اور یہ پچھلی 6 دہائیوں سے دبائے اور کچلے جارہے فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے وہاں پہنچ جاتے۔ بسترِ علالت سے جاری ایک بیان میں کشمیری راہنما نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ پچھلی تقریباً 7 دہائیوں سے حل طلب ہے اور بھارت جبری طور اس خطے پر قابض ہے۔ اس کے بجائے ’’داعش‘‘ نام کی تنظیم کی عمر دو تین سال سے زائد نہیں ہے اور اس عرصے کے دوران میں ’’دولت اسلامیہ‘‘ کے وجود سے مسلمانوں کا کوئی مسئلہ حل ہونے کے بجائے پوری مسلم دنیا خانہ جنگی میں مصروف ہوگئی ہے اور ایک اللہ اور ایک رسول (ص) کو ماننے والے لوگ ایک دوسرے کی گردنیں اُڑا رہے ہیں۔سید علی گیلانی نے کہا کہ بھارت کشمیری قوم کی تحریکِ آزادی کو دہشت گردی سے جوڑنے اور نتھی کرنے کی سرتوڑ کوششیں بروئے کار لارہا ہے اور ایسے موقعے پر ’’داعش‘‘ کا کشمیر کے حالات پر تبصرہ بڑا معنی خیز ہے اور اس کے پسِ پردہ عوامل بہت زیادہ خطرناک معلوم ہورہے ہیں۔ دلی کے پالیسی ساز ویسے بھی پورے بھارت میں مسلم اقلیت کے خلاف ’’داعش‘‘ کا کارڈ کھیلنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں اور اب اس کا دائرہ کشمیر تک بھی بڑھایا جارہا ہے، تاکہ اُس کی مسلح افواج کی نہتے کشمیریوں پر جبر و زیادتیوں اور جنگی جرائم کو کور (Cover) فراہم ہوسکے اور عالمی برادری کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹادی جائے۔ پاکستان اور یہاں کی افواج سے متعلق ’’داعش‘‘ کے تبصرے پر ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے علی گیلانی نے کہا کہ کشمیر سے متعلق پاکستان کی پالیسیوں میں یقینی طور کچھ خامیاں اور کمیاں موجود رہی ہیں اور ہم وقت وقت پر ان کی نشاندہی بھی کرتے رہے ہیں، البتہ اس کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں کہ پاکستان کشمیری قوم کی آزادی کا دشمن ہے اور وہ اس خطے پر بھارت کے جبری قبضے کو قبول کرتا ہے۔ آزادی پسند راہنما نے کہا کہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت کرنے کی پاکستان کو بھاری قیمت چُکانا پڑی ہے اور یہ ملک اس وجہ سے دولخت بھی ہوگیا ہے۔ یہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان اور یہاں کی افواج ہیں، جو کُھل کر کشمیری قوم کے حقِ آزادی کی حمایت کرتی ہیں لہٰذا یہ کہنے میں کوئی زیادہ حقیقت نہیں کہ پاکستان کشمیریوں کا استحصال کرتا رہا ہے۔ داعش یا آئی ایس آئی ایس (ISIS) کے بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم مسٹر نیتن یاہو کے تبصرے کہ ’’میں اس تنظیم کو ایران جیسے ملک پر ترجیح دیتا ہوں‘‘۔ پر ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے کشمیری راہنما نے کہا کہ فلسطین سے متعلق ’’دولت اسلامیہ‘‘ کا موقف اس تنظیم کی حقیقت اور ہئیت جاننے کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ اس تنظیم کے پسِ پردہ عوامل، محرکات اور مقاصد پر کافی روشنی ڈالتا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ داعش فلسطینیوں کی جدوجہد کو جہاد کے زمرے میں شمار نہیں کرتی، بلکہ جب اسرائیل غزہ اور دوسرے مقامات پر بم برسا کر معصوم فلسطینی بچوں کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کررہا تھا، تو داعش کے جنگجوؤں (جو اسرائیل کی سرحد پر موجود ہیں) نے ایک گولی بھی اسرائیل کی طرف چلائی اور نہ اس بمباری پر کوئی تبصرہ کیا۔ علی گیلانی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ خلافت اسلایہ کا قیام دنیا کے ہرمسلمان کا خواب ہے، البتہ داعش کے وجود اور اس کی کارکردگی پر بہت سارے سوالات ہیں، جن کا کوئی معقول جواب دستیاب نہیں ہے۔ دنیا میں امن اور عدل کا قیام اسلام کا بنیادی مقصد ہے اور انسانی زندگی کو جو احترام اور تحفظ اسلام نے فراہم کیا ہے، اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی ہے۔ گیلانی نے کہا کہ شیعہ سُنی اختلاف کو ہَوا دینے سے خلافت کا قیام عمل میں آنے سے رہا، البتہ یہ امریکہ، اسرائیل اور دوسری سامراجی قوتوں کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ضرور مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں خود کاٹ رہے ہیں اور امریکہ اور اسرائیل ایک طرف ہوکر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔